نیویارک شہر کی گہماگہمی، اس کے شور و شغب اور پیچیدہ سیاسی منظرنامے میں کچھ کہانیاں ایسی ہیں جو دل و دماغ کو یکساں طور پر اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ انہی میں سے ایک ہے زوہران ممدانی کی کہانی — ایک نوجوان، پُرجوش اور ترقی پسند رہنما کی، جو ریاستی اسمبلی کے رکن کے طور پر اپنی پہچان بنانے کے بعد حیرت انگیز طور پر میئر کی کرسی تک جا پہنچے۔
اگرچہ ان کا باضابطہ عہدہ تاحال کویِنس کے چھتیسویں ضلع کی نمائندگی کرنے والے ریاستی اسمبلی ممبر کا ہے، مگر عوامی مباحثوں اور سیاسی قیاس آرائیوں میں وہ پہلے ہی "نیویارک کے آنے والے میئر" کے طور پر زیرِ گفتگو ہیں — اور یہی بات اس بات کی گواہی ہے کہ ممدانی نے روایتی سیاسی راستوں سے ہٹ کر ایک نیا، غیر معمولی سفر اختیار کیا ہے۔
ممدانی کی سیاست جڑوں سے اُبھری ہوئی ہے — عوامی تحریکوں، جمہوری سوشلسٹ نظریات، اور ان گنت عام لوگوں کی آرزوؤں سے بنی ہوئی سیاست۔ ان کی حالیہ میئر کی حیثیت سے فتح، جو بیشتر ماہرین کے لیے ناقابلِ یقین تھی، محض ذاتی کامیابی نہیں بلکہ ایک نئے سیاسی مزاج کی آمد کا اشارہ ہے — ایسا مزاج جو ترقی پسندی، شمولیت اور نسلی و فکری تنوع پر مبنی ہے۔
"غیر متوقع میئر" کی کہانی دراصل کسی ایک شخص کے عہدہ سنبھالنے کی نہیں، بلکہ اس علامت کی ہے جو وہ اپنے ساتھ لاتے ہیں — ایک نئے سیاسی سانچے کی تشکیل۔
ان کا منشور سادہ مگر انقلابی ہے: سستی رہائش، مزدوروں کے حقوق، بچوں کی عالمگیر نگہداشت، اور عوامی تحفظ کا نیا تصور۔ ان نعروں نے نیویارک کے مختلف طبقات کو ایک نکتے پر اکٹھا کر دیا ہے — وہ سب جو تبدیلی کے خواہاں ہیں، جنہیں ممدانی میں اپنی محرومیوں اور خوابوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
ممدانی کی ممکنہ میئرشپ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سیاست کے راستے اب کسی سیدھی لکیر پر نہیں چلتے۔
یہ زمانہ ان رہنماؤں کا ہے جو روایتی سیاسی کارخانوں سے نہیں بلکہ محلّوں، جلسوں اور دلوں سے ابھرتے ہیں — وہ جو نوجوان توانائی کو عملی بصیرت کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
ممدانی کا سفر، اسمبلی سے میئر کی طرف، اس نئی سیاست کی علامت ہے جس میں حیرت اب استثنا نہیں، معمول بن چکی ہے۔
آنے والے دنوں میں زوہران ممدانی کی کہانی شاید میئر کے عہدے کی آزمائش سے کم اور اس وعدے سے زیادہ جڑی ہوگی جو ان کی قیادت اپنے اندر رکھتی ہے — ایک ایسا وعدہ جو سیاسی جدت، شمولیت اور اصلاح کا پیامبر بن سکتا ہے۔
ان کی کامیابی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ قیادت کے معنی شاید بدل چکے ہیں، اور اب راستے وہ نہیں جو ماضی میں طے کیے گئے تھے۔
یوں "غیر متوقع میئر" کا عنوان کسی عجلت یا مبالغے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک دعوت ہے — دعوتِ غور و فکر:
کہ ہم اس سیاسی سفر کو قریب سے دیکھیں جو شاید قیادت کے نئے معنی رقم کرے،
ایک ایسے عہد میں جو تبدیلی کا بھوکا ہے۔

No comments:
Post a Comment