Monday, 10 November 2025

مولانا ابوالکلام آزاد کی چائے کی محبت اور زندگی کی سادگی

9845498354جمیل احمد  ملنسار، بنگلور۔


مولانا ابوالکلام آزاد اپنی پوری زندگی میں صرف ایک عظیم سیاستدان اور ہندوستان کے ممتاز تحریک آزادی کے مجاہد ہی نہیں بلکہ علم و ادب کے وہ بلند پایہ ستارہ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنے قلم سے نسلوں کو روشنی دکھائی بلکہ اپنی زندگی کے روزمرہ معمولات میں ایک خاص مطابقت اور ضبط بھی رکھی۔ ان کی زندگی کی ایک دلفریب اور دل چسپ روایت ان کی چائے کی محبت ہے، جو ان کے متحرک اور پیچیدہ کردار کے بالمقابل ان کی سادگی اور وقت کی قدر کی گواہ ہے۔


مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ کہنا کہ وہ صبح صادق سے پہلے اپنی چینی جاسمین چائے خود بناتے تھے، اس وقت گھر میں کسی کو جگائے بغیر، ان کی خود انحصاری، اصول پسندی اور اپنے آپ کو وقت دینے کی صلاحیت کی نشانی ہے۔ گھر کی خاموشی میں چائے کی خوشبو، ان کے ذہن کی مشقتوں میں ایک نرم لمحہ تھا، جو کسی بھی بڑے سیاسی فیصلے سے کم اہمیت نہیں رکھتا تھا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی ولادت 1888 میں مکہ مکرمہ میں ہوئی، جہاں ان کا خاندان اسلام کے علمی روایات کا بانی تھا۔ ان کے والد، مولانا خیر الدین، ایک معروف عالم تھے جن کے زیر تربیت انہوں نے اپنی علمی بنیادیں مضبوط کیں۔ عربی، فارسی اور اردو ثقافتوں کے گہرے اثرات نے ان کی ذوق میں ایک انوکھا رنگ بھرا جس میں چائے کی خاص پسند—چینی جاسمین چائے—بھی شامل تھی۔ اپنے نوجوانی کے دور میں انہوں نے صحافت کا آغاز کیا اور آزادی کی تحریک میں مسلم اور ہندو برادری کو متحد کرنے کی کوشش کی۔
ان کے روزانہ کے معمولات میں چائے ایک مقدس رسم تھی۔ وہ خود اٹھتے اور بغیر دودھ یا چینی کے صرف سفید چینی جاسمین چائے پکاتے۔ یہ ان کی سادگی، خوداعتمادی اور دوسروں کو تکلیف نہ دینے کی عکاسی کرتا تھا۔ ان کا مذہب اور شخصیت ان کے اس معمول میں جھلکتا تھا، جہاں چائے کے چند کپ ان کی سوچ اور غور و فکر کا ذریعہ بنتے۔
ان کے سیاسی اور سماجی زندگی میں بھی چائے کا ذکر آتا ہے۔ گاندھی جی، نہرو اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں اکثر چائے کا تذکرہ ہوتا تھا، جو ان کے سماجی روابط اور ثقافتی شناخت کی عکاسی کرتا تھا۔ برطانوی راج میں چائے کی ثقافت عام تھی، مگر مولانا آزاد کی پسندیدہ چائے چینی جاسمین تھی جو ان کے عالمی روح اور ہندوستانی پہچان کے امتزاج کو ظاہر کرتی ہے۔ اس زمانے کے ادیبوں اور دانشوروں میں بھی چائے کا ایک خاص سحر تھا جس نے ان کے تخلیقی اور فکری کاموں کو متاثر کیا۔
مولانا آزاد کی چائے کی محبت انہیں صرف ایک سیاسی شخصیت تک محدود نہیں رکھتی بلکہ انھیں ایک رہنما کے ساتھ ساتھ ہم جیسا آدمی بناتی ہے۔ ان کے بارے میں لکھی گئی کتب اور سوانح میں یہ پہلو اکثر سامنے آتا ہے کہ یہ معمولی سی عادت ان کی زندگی کی سنجیدگی اور روحانی سکون کا اظہار تھی۔ آج بھی ان کی چائے کی یہ روایت ان کی شخصی زندگی کی سادگی، نظم و ضبط اور خوشی کا مظہر ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا وصال 1958 میں ہوا لیکن ان کی یادگار ریاستی خدمات، تعلیمی اصلاحات اور آزادی کی جدوجہد میں ان کے کردار کے علاوہ ان کی چائے کی محبت نے انسانوں کے دلوں میں ایک الگ جگہ بنائی ہے۔ ان کی زندگی کی یہ ایک منفرد روایت، ان کے علمی اور سیاسی مراحل میں توازن کی داستان سناتی ہے اور ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ بڑے خیالات رکھنے والے لوگ بھی چھوٹے چھوٹے خوشیوں میں گہرائی اور محبت پا سکتے ہیں۔
لہٰذا، جب بھی ہم چائے کے کپ کے ساتھ کوئی لمحہ گزاریں تو مولانا آزاد کی اس روایت کو یاد رکھیں جو محض ایک شاعرانہ عادت نہیں بلکہ ایک جذبہ، وقت کی قدر، اور زندگی کی گہری صحیح تصویر پیش کرتی ہے۔ ان کے اس انسانی پہلو کو جان کر ہمیں عشروں پرانے قصے نہ صرف یاد آئیں گے بلکہ وہ ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment

فولادی ارادے، نازک قسمت — اندرا گاندھی کی کہانی *از : جمیل احمد ملنسار* بنگلور 9845498354  آج کے دن، 31 اکتوبر  کو، اندرا گاندھی کے المناک ق...