از: جمیل احمد ملنسار، بنگلور
ہر زمانہ ایک ایسی آواز کو جنم دیتا ہے جو مذہب کے نام پر کھڑی کی گئی دیواروں سے سوال کرتی ہے۔ سولھویں صدی کے کرناٹک میں وہ آواز کنک داسا (1509–1606) کی تھی — ایک چرواہے اور سپاہی کی، جس نے تلوار رکھ دی اور روحانیت و شاعری کے سفر پر نکل پڑا، اور ہمیشہ کے لیے ہندوستان کی ضمیرِ حیات میں امر ہو گیا۔
کنک داسا کا اصل نام تھِمّپّا نائک تھا، اور وہ باڈا گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق کُرُبہ برادری سے تھا — ایک ایسا طبقہ جو اُس دور کے مذہبی ایوانوں سے بہت دور سمجھا جاتا تھا۔ مگر یہی چرواہا جب فکری اور اخلاقی بصیرت کے سفر پر نکلا تو اپنے زمانے کے لیے ایک اخلاقی رہنما بن گیا — اور آج بھی ہماری دنیا کے لیے راہ دکھاتا ہے۔
کنک داسا نے سنسکرت نہیں بلکہ عام لوگوں کی زبان، کنڑ میں لکھا۔ ان کی تخلیقات — موہنا ترنگنی، نلا چرترے، رام دھیان چرترے اور سینکڑوں کیرتن — گہرے روحانی مفاہیم کو سادہ اور دل نشین زبان میں پیش کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک بھکتی یعنی عقیدت، رسومات سے برتر تھی؛ مساوات، درجہ بندی سے افضل؛ اور اخلاقی جرأت، اندھی تقلید سے زیادہ قیمتی۔ ان کے نزدیک خدا مندر کی دیواروں میں مقید نہیں، بلکہ عاجزی، محبت اور دیانت دار عمل میں جلوہ گر ہے۔
بغاوت سے بندگی تک کا سفر
کنک داسا کی زندگی فرار کی نہیں بلکہ مقابلے کی زندگی تھی۔ روایت ہے کہ جب اُڈوپی کے کرشن مندر کے برہمن پجاریوں نے انہیں داخلے سے روکا، تو کرشن مورتی نے رخ موڑ کر ایک چھوٹی کھڑکی سے اُنہیں دیدار بخشا — یہی کھڑکی آج کنکنا کنڈی کے نام سے مشہور ہے۔
چاہے یہ واقعہ حقیقت ہو یا علامت، مگر یہ کنک داسا کے پیغام کا نچوڑ بیان کرتا ہے: خدا امتیاز نہیں کرتا۔
ان کے اشعار میں طنز، لطافت اور گہری بصیرت یکجا تھی۔ ایک گیت میں وہ پوچھتے ہیں:
“کیا فائدہ تمہارے جنئو کا، اگر تمہارا دل غرور میں الجھا ہوا ہے؟”
کنک داسا کی شاعری مذہب کا انکار نہیں تھی بلکہ اس کی اصل روح کی بازیافت تھی — یہ احساس کہ عبادت، مساوات کے بغیر ادھوری ہے۔
پیغام جو وقت سے ماورا ہے
ایک ایسے دور میں جب ذات پات نے عبادت اور علم دونوں پر قفل لگا رکھے تھے، کنک داسا کی آواز انقلابی معلوم ہوتی تھی۔ وہ سکھاتے تھے کہ کرم اور بھکتی، نسب سے برتر ہیں، اور اصل پوجا وہ ہے جو دل میں جاگتی ہے، نہ کہ رسومات کے شور میں۔
ان کے پیغام میں بھکتی اور صوفی روایتوں کی ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے — وہی آفاقی محبت، وہی انسان دوستی۔ اگرچہ وہ ویشنو دھرم کے دوئی کے فلسفے سے وابستہ تھے، مگر ان کا خدا محدود نہیں تھا؛ وہ ہر مخلص دل میں جلوہ گر تھا۔
آج کے دور میں ان کی معنویت
پانچ صدیوں بعد بھی کنک داسا کی آواز ہمارے زمانے کے شور میں سنائی دیتی ہے۔ آج جب ذات، مذہب اور سیاست کے نام پر معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے، ان کا اصرار انسان کی عزت اور مساوات پر پہلے سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔
اُڈوپی کی کنکنا کنڈی اب صرف مندر کی ایک کھڑکی نہیں بلکہ ایک استعارہ ہے — اُس ہندوستان کا استعارہ جس کی ہم تمنا کرتے ہیں: کھلا، شفیق، اور سب کو گلے لگانے والا۔
کنک داسا کا پیغام مذہب کے نام پر تفرقہ ڈالنے والوں کے لیے خاموش مگر مضبوط جواب ہے۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ روحانیت کا اصل جوہر وہی ہے جو سرحدیں مٹا دے۔ جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:
“ہر شے میں خدا کو دیکھو، اور پھر تمہیں کوئی فرق نظر نہ آئے گا۔”
کنک داسا آج بھی زندہ ہیں، اس لیے نہیں کہ انہوں نے معجزے سنائے، بلکہ اس لیے کہ انہوں نے سچائی، انکساری اور مساوات کا نغمہ گایا۔
ان کی یاد ہمیں ماضی کے کسی بزرگ کی نہیں بلکہ ایک زندہ ضمیر کی یاد دلاتی ہے — جو آج بھی ہمیں یہ کہتی ہے:
“خدا اُس دل کی دعا سنتا ہے جو کھلا ہو، اور اُس ذہن کی جو آزاد ہو۔”
مصنف: جمیل احمد ملنسار
رکنِ جنرل اسمبلی — انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی
No comments:
Post a Comment