تاریخ کے افق پر جب ہم اُن شخصیات کو تلاش کرتے ہیں جنہوں نے ملتِ اسلامیہ ہند کے دل و دماغ میں حریت، خودی اور ایمان کی شمع روشن کی، تو تین درخشاں نام نظر آتے ہیں —
ٹیپو سلطان (۱۰ نومبر ۱۷۵۰)، علامہ محمد اقبال (۹ نومبر ۱۸۷۷)، اور مولانا ابوالکلام آزاد (۱۱ نومبر ۱۸۸۸)۔
یہ تینوں اگرچہ زمان و مکان کے اعتبار سے جدا ہیں، مگر فکر و جذبے کی رُوح میں ایک ہیں۔
ایک نے تلوار سے غلامی کو چیلنج کیا، دوسرے نے قلم سے خوابِ بیداری جگایا، اور تیسرے نے زبان و عمل سے ملت کے دلوں میں حریت کی آگ بھڑکائی۔
یوں یہ تینوں ایک ہی شعلۂ صداقت کے امین ہیں —
آزادی، خودداری، اور ایمان کے۔ٹیپو سلطان: عزم و قربانی کا استعارہ
ٹیپو سلطان تاریخِ ہند کا وہ مردِ آہن ہے جس نے غلامی کو گناہ سمجھا اور استعمار کے آگے سر جھکانے کے بجائے اپنی جان قربان کر دی۔
شیرِ میسور نے اپنے خون سے یہ پیغام لکھا
“شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔”
ٹیپو سلطان کی زندگی صرف میدانِ جنگ کی داستان نہیں، بلکہ ایمان، خودداری، غیرت اور حبِ وطن کا ایک لازوال درس ہے۔
اس کی روح میں وہی آتشِ عشقِ وطن تھی جو بعد کے مفکرین کے دلوں کو منور کرنے والی روشنی بن گئی۔
علامہ اقبال پر ٹیپو کے اثرات
علامہ اقبال کی شاعری میں جہاں رومی کی معنوی گہرائی ہے، وہیں ٹیپو سلطان کی شجاعت کا ولولہ بھی جھلکتا ہے۔
اقبال نے ٹیپو کو صرف ایک سپہ سالار نہیں، بلکہ ایک مومنِ مجاہد کے طور پر دیکھا —
وہ مردِ مومن جو موت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ شہادت ایک ابدی حیات ہے۔
اقبال نے فرمایا:
“وہ ایک سچا مسلمان بادشاہ تھا، جس نے اپنی قوم کے لیے زندگی نہیں، موت کو پسند کیا۔”
ٹیپو سلطان کے کردار کی روح اقبال کے کئی اشعار میں جھلکتی ہے:
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
اور
نکل کے خلد سے آدم نے کی تھی کچھ تدبیر
کہ اپنے واسطے جنت پھر ایک بار کرے
یہ اشعار دراصل اقبال کی اُس فکری دنیا کا آئینہ ہیں جس میں “انکار” اور “اقدام” کا جوہر زندہ ہے۔
اقبال کے نزدیک مومن وہ نہیں جو تقدیر کے سامنے سر جھکا دے، بلکہ وہ ہے جو تقدیر کو بدلنے کی جرأت رکھتا ہو —
اور یہی ٹیپو سلطان کی اصل روح تھی۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا زاویۂ نظر
مولانا آزاد کی تحریروں میں ٹیپو سلطان ایک تاریخی ہیرو نہیں، بلکہ ایک فکری و اخلاقی مثالیہ ہے۔
آزاد نے لکھا:
“ٹیپو سلطان نے وہ کر دکھایا جو بہتوں نے سوچا بھی نہیں۔ وہ بادشاہ تھا مگر دل میں درویش کی غیرت رکھتا تھا۔ وہ مجاہد تھا مگر اس کا ہتھیار ایمان سے کند نہیں ہوا۔”
مولانا آزاد کے نزدیک ٹیپو کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے “غلامی کو گناہ” قرار دیا۔
آزاد نے اپنی تقاریر میں ٹیپو کو “ہندوستان کی غیرتِ ملی کا پہلا شہید” کہا،
اور باور کرایا کہ ٹیپو کی قربانی کا پیغام آج بھی زندہ ہے —
کیونکہ آج بھی ہم ذہنی و فکری غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
بس زنجیریں بدل گئی ہیں، غلامی کی نوعیت نہیں۔
فکری تسلسل: ٹیپو سے اقبال و آزاد تک
ٹیپو سلطان کی تلوار سے نکلنے والی چنگاریاں اقبال کے قلم میں روشنی بن کر جلوہ گر ہوئیں،
اور آزاد کے بیان میں بیداری کا نعرہ بن گئیں۔
ٹیپو نے جس آزادی کے بیج کو اپنے خون سے سینچا،
اقبال نے اسے فکر میں پروان چڑھایا اور آزاد نے اسے سیاست و تعلیم کے میدان میں برگ و بار عطا کیا۔
یوں یہ تینوں شخصیات ملتِ اسلامیہ ہند کے فکری ارتقاء کے تین مربوط اور روشن ابواب ہیں۔
اختتامیہ: روحِ حریت کا تسلسل
آج جب انسان غلامی کی نئی صورتوں میں گرفتار ہے —
جب دل دولت کے بندھن میں اور ذہن مغربی تقلید میں قید ہیں —
تو ہمیں پھر ان تین میناروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے:
ٹیپو کا عمل، اقبال کا شعور، اور آزاد کی بصیرت۔
یہی تینوں ہماری نجات کا راستہ ہیں۔
اقبال نے گویا آج کے انسان سے بھی یہی کہا تھا:
اٹھا میں مدرسۂ خوں سے لیکر درسِ یقین تک
دیا ہے خونِ جگر نے مجھے سوزِ درونِ مومن
اور پھر فرمایا:
وجودِ زنده نے مرگِ جمیل پیدا کی
یہ راز کوئی سمجھائے کیا شہیدوں کو
یہ اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ قوموں کی زندگی شہادت اور قربانی سے عبارت ہے۔
اگر ہم اپنی روحوں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں،
تو ہمیں ٹیپو کی تلوار، اقبال کی خودی، اور آزاد کی بصیرت کو اپنی رگوں میں دوڑانا ہوگا۔
یہ تینوں شخصیات دراصل ایک ہی چراغ کی مختلف لَو ہیں —
چراغِ ایمان، حریت، اور انسانیت۔
جب تک یہ روشنی قائم ہے، امت کا افق کبھی تاریک نہیں ہو سکتا۔ 🌙
کیا آپ چاہیں گے کہ میں اسی مضمون کا PDF یا اخباری صفحے کی ترتیب (کالموں اور تصویری جگہ کے ساتھ) بھی بنا دوں تاکہ آپ اسے براہِ راست ادبی رسالے یا اخبار میں اشاعت کے لیے بھیج سکیں؟
No comments:
Post a Comment