Monday, 10 November 2025

تیغ و ایمان کے علمبردار- ٹیپو سلطان: وہ جو جھکا نہیں





ٹیپو سلطان کی زندگی اور جدوجہد کا آج کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں تقابلی جائزہ لینا نہایت اہم ہے۔ ان کا اصولِ عدم تعاون برطانوی حکمرانی سے آزادی کے لیے ایک مضبوط پیغام تھا، جو آج بھی قوموں کی خودمختاری کے دفاع میں ہمیں روشنی فراہم کرتا ہے۔

آج کے ہندوستان میں، جہاں آزادی کی تحریک نے نئی شکلیں اختیار کر لی ہیں، ٹیپو سلطان کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قومی وقار اور خودمختاری صرف نصاب کی کتابوں کا حصہ نہیں بلکہ ایک زندہ جذبہ ہے جو ہر دور میں قابلِ حفاظت رہتا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں جب مقامی اور عالمی سطح پر خودمختاری کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، ٹیپو کی مثال ہمیں استقلال اور جذبے کے ساتھ اپنی شناخت اور حق کے لیے کھڑے ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔

ٹیپو سلطان کی حکمرانی میں جس طرح انہوں نے اپنے دور کے عالمی سیاست کے تقاضوں کو سمجھا اور مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کیے، وہ آج کے سفارتی توازن اور عالمی تعلقات سے بھی ہم آہنگی رکھتا ہے۔ یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ خودمختاری کا دفاع صرف عسکری محاذ تک محدود نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سفارتی جنگ بھی ہے۔

آج کی نسل کو چاہیے کہ وہ ٹیپو سلطان جیسے تاریخی رہنماؤں کے اصولوں سے سیکھے، جو صرف جبر کے خلاف مزاحمت نہیں بلکہ ایک جدید، خودمختار اور ترقی پسند معاشرہ قائم کرنے کی جدوجہد بھی تھے۔ ایسے قائدین کی یاد میں نہ صرف

اٹھارویں صدی کے آخر میں جب برصغیر پر برطانوی سامراج کا سایہ پھیلنا شروع ہوا تو جنوبی ہند سے ایک ایسی شخصیت ابھری جس نے سامراجی طاقتوں کے غرور کو للکارا۔ یہ شخصیت ٹیپو سلطان کی تھی — ’’شیرِ میسور‘‘، جنہوں نے اپنی بصیرت، جرأت اور سیاسی فراست سے حریتِ وطن کی ایک لازوال داستان رقم کی۔

ٹیپو سلطان 1751 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عمر ہی سے ان کی تربیت علم، جنگی حکمتِ عملی اور خودداری کے اخلاق پر ہوئی۔ والد حیدر علی کے بعد جب 1782 میں انہوں نے میسور کی باگ دوڑ سنبھالی تو انہوں نے ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو ترقی، عدل اور عسکری قوت کا مرکز بن گئی۔

ان کے دورِ حکومت میں مالی نظم بہتر ہوا، زراعت و صنعت کو فروغ ملا، اور سڑکوں اور قلعوں کے نظام میں نمایاں ترقی ہوئی۔ ان کا سب سے انقلابی کارنامہ جنگی راکٹوں کی تیاری تھی جس نے اس دور کے جدید ترین ہتھیاروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ مورخین مانتے ہیں کہ یہی تجربات بعد میں یورپی فوجی ٹیکنالوجی کی بنیاد بنے۔

ٹیپو سلطان نہ صرف ایک بادشاہ تھے بلکہ اپنی فکر میں ایک سیاسی مفکر بھی تھے۔ انہوں نے جان لیا تھا کہ انگریزوں کی تجارت دراصل سیاسی قبضے کی پیش خیمہ ہے۔ اسی لیے انہوں نے فرانس اور ترکی جیسے ممالک سے اتحاد کر کے برطانوی برتری کے خلاف ایک بین الاقوامی توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔

انگریزوں کے لیے ٹیپو سلطان ایک ناقابلِ تسخیر رکاوٹ تھے۔ مرہٹوں اور نظامِ حیدرآباد کو ساتھ ملا کر برطانوی قوتوں نے چار جنگیں لڑی، مگر ٹیپو نے ہر معرکہ میں برتری اور جرأت کا علم بلندی پر رکھا۔

1799 کی چوتھی جنگ میں جب سرنگاپٹنم کا پہاڑوں جیسا قلعہ دشمن کے محاصرے میں آیا تو ٹیپو سلطان نے آخری سانس تک میدانِ جنگ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ شہید ہوئے مگر جھکے نہیں۔ ان کی زندگی نے ثابت کیا کہ عزت کی موت غلامی کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔

ٹیپو سلطان کے بعد ان کی سلطنت کو تقسیم کر دیا گیا، مگر ان کی قربانی نے ہندوستان کی آزادی کی آگ کو ایک نئی روشنی دی۔ وہ محض ایک حکمران نہیں، ایک کردار تھے — جنہوں نے یہ سکھایا کہ قوموں کی زندگی میں خودداری ہی وہ جوہر ہے جو غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکتا ہے۔

ٹیپو سلطان کے یہ الفاظ آج بھی تاریخ کی دیواروں سے گونجتے ہیں:
“شیر کی ایک دن کی زندگی، بھیڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔”
آج جب ہم اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان کی جدوجہد محض ایک شخص کی نہیں، تاریخی فہم بلکہ آج کے مسائل کے حل کے لیے بھی رہنمائی پنہاں ہے۔

No comments:

Post a Comment

فولادی ارادے، نازک قسمت — اندرا گاندھی کی کہانی *از : جمیل احمد ملنسار* بنگلور 9845498354  آج کے دن، 31 اکتوبر  کو، اندرا گاندھی کے المناک ق...