Tuesday, 2 December 2025

سرہدی خواب






Jameel Aahmed Milansaar
وہ رات دسمبر کی تھی، جب شہر کے اوپر بادل چھا گئے اور سڑکوں پر روشنی دھند کے پیچھے کہیں کھو گئی۔ ریڈیو پر پرانی غزل چل رہی تھی —
چند لمحے کو تو خوابوں میں بھی آ کر جھانک لے…
نصرت بیگم کی آواز نے جیسے کسی پرانے زخم کو چھو لیا۔​



میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ سڑک کے کنارے وہی پرانی چائے کی دکان دکھائی دی، جہاں کبھی ہم سب دوست سیاست پر بحث کیا کرتے تھے۔ ناصر، جو اب دبئی میں کسی کمپنی میں ہے، کہتا تھا کہ خواب دیکھنے والے لوگ ہی تاریخ بدلتے ہیں، اور دبئی جیسے شہر میں خواب اور ہجرت ایک ہی کہانی کے دو رخ بن جاتے ہیں۔ دبئی میں بسنے والے جنوبی ایشیائیوں کے لیے یہ شہر روزگار کے ساتھ ساتھ یادوں اور ادھوری وابستگیوں کا استعارہ بھی بن چکا ہے۔​

وہ، جو کبھی میری ساتھی تھی — جلسوں میں نعرے لگانے والی، کتابوں پر بحث کرنے والی، محرومی کی زبان سمجھنے والی — اب کہیں نہیں۔ برسوں بیت گئے ہیں۔ پتہ نہیں کہاں ہے، مگر کبھی کبھار لگتا ہے کہ اس کی آواز اب بھی ان ہی گلیوں میں گونجتی ہے۔ شاید وہ بھی سوچتی ہو: زندگی تجھ سے ملے کتنے زمانے ہو گئے۔

گزشتہ جمعہ کو ایک سیمینار میں اس کا ذکر آیا۔ کسی نے کہا، وہ اب دبئی میں پڑھاتی ہے، جہاں غیر ملکیوں کے لیے مستقل شہریت ایک خواب بنی رہتی ہے اور پھر بھی وہ خود کو اس شہر کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لمحے بھر کو دل نے چاہا کہ فون کر کے پوچھوں، “کیا تم اب بھی خواب دیکھتی ہو؟” مگر پھر سوچا، شاید اب خواب بھی سرحدوں، ویزوں اور کنٹریکٹ کی مدتوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔​

ریڈیو پر غزل ختم ہوئی، اور اسپیکر سے صدا آئی: “یہ نغمہ ہمیں یاد دلاتا ہے گزرے وقتوں کی، جب خواب آزاد تھے۔” دبئی کی اونچی عمارتوں اور بنے سنورے شاپنگ مالز کے بیچ بھی دل میں کہیں ایک پرانی گلی آباد رہتی ہے، جہاں کسی زمانے میں ہم بے خوف ہو کر خواب دیکھا کرتے تھے۔​

میں نے بتی بند کر دی۔ کمرے میں اندھیرا پھیل گیا، مگر کھڑکی کے باہر روشنی کی ایک لہر باقی تھی — جیسے کوئی برسوں بعد خوابوں میں آ کر جھانک گیا ہو۔

No comments:

Post a Comment

سرہدی خواب

Jameel Aahmed Milansaar وہ رات دسمبر کی تھی، جب شہر کے اوپر بادل چھا گئے اور سڑکوں پر روشنی دھند کے پیچھے کہیں کھو گئی۔ ریڈیو پر پرانی غزل چ...