Tuesday, 9 December 2025

نو سال کا موسمِ قید- عبدالوحید شیخ اور 7/11 بم دھماکوں کے مقدمے کا نہ ختم ہونے والا سایہ





نو سال کا موسمِ قید- عبدالوحید شیخ اور 7/11 بم دھماکوں کے مقدمے کا نہ ختم ہونے والا سایہ
تحریر: جمیل احمد ملنسار


ممبئی کی ریل گاڑیاں اس رات چیخ پڑی تھیں۔ جولائی 2006 کی وہ المناک شام شہر کی سانسوں میں بارود گھول گئی۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ جانیں اجڑ گئیں، سیکڑوں خواب ملبے میں دفن ہو گئے، اور خوف نے انصاف کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ چند ہی ہفتوں میں اعلان ہوا کہ ملزمان پکڑ لیے گئے ہیں—تیرہ مسلمان نوجوان، جنہیں ایک لمحے میں "دہشت گرد" کہہ دیا گیا۔ ان میں ایک غیر نمایاں مگر روشن نام تھا: عبدالوحید شیخ، گوونڈی کا استاد، جو بچوں کو الفاظ پڑھانا جانتا تھا لیکن اپنے دفاع کا ایک حرف بھی نہیں لکھ سکا۔

نو برس وہ جیل کی دیواروں میں زندگی کے برابر بٹتا رہا۔ 2015 میں عدالت نے خاموشی سے بتایا کہ ثبوت نہیں ملے، لہٰذا بری کیا جاتا ہے۔ مگر بریت انصاف نہیں تھی، صرف سزا کے اختتام کا اعلان تھا۔ رہائی کے دس برس بعد، جب بمبئی ہائی کورٹ نے باقی تمام ملزموں کو بھی بے گناہ قرار دیا، تب عبد الوحید نے نو کروڑ روپے کے ہرجانے کا دعویٰ کیا—ایک کروڑ ہر قید کے سال کا۔ مگر یہ دعویٰ رقم کا نہیں ضمیر کا تھا، اس اقرار کا کہ ریاست نے غلطی کی، اور اس کی قیمت ایک انسان کی زندگی بنی۔

قانونی ریکارڈ میں وہ اذیت درج نہیں جو اس کے جسم پر نقش ہو چکی تھی۔ حراست کے دوران دی جانے والی مار، آنکھوں میں گلوکوما، ہڈیوں کی کمزوری اور روح کی تھکن۔ باپ اسی دوران بچھڑ گیا، ماں کے حواس بکھر گئے، اور بچے اسکول کے دروازوں پر تماشہ بن گئے—وہ ہر نیا دن "دہشت گرد کے بچے" کہلا کر شروع کرتے تھے۔ تیس لاکھ کے قرض اور بے شمار طنزوں کے نیچے ایک استاد کی کھلتی ہوئی عمر دب گئی۔ اٹھائیس سے سینتیس برس کے درمیان، وہ برس جو خواب اور گھر بنانے کے ہوتے ہیں، ایک جھوٹے بیانیے کی نذر ہو گئے۔

عبد الوحید انصاف کے دروازے کھٹکھٹاتا رہا۔ قومی انسانی حقوق کمیشن، ریاستی کمیشن، اقلیتی کمیشن—سب کے سب وہی رسمی زبان بولتے، “ہم سن سکتے ہیں، مگر کچھ کر نہیں سکتے۔” یہ ادارے قانون کے مطابق طاقتور ضرور ہیں، مگر ان کے فیصلے سفارشات بن کر فائلوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ انصاف کے چراغ کبھی کبھار ہی جلتے دکھائی دیتے ہیں، جیسے نَمبی نارائنن کا مقدمہ، مگر باقی سب زندگیاں نظام کے اندھیرے میں گم ہو جاتی ہیں۔

عبد الوحید کا معاملہ صرف ایک فرد کا نہیں، پورے انصاف کے ڈھانچے کا امتحان ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیاں ثبوت نہیں، تعصب تلاش کرتی ہیں۔ مقدمے برسوں گھسٹتے رہتے ہیں یہاں تک کہ بریت بھی سزا بن جاتی ہے۔ افسران جو جھوٹ تراشتے ہیں، آج بھی باعزت نوکریوں پر فائز ہیں۔ معاوضے کا قانون نہیں، صرف ہمدردی کے الفاظ ہیں۔ میڈیا گرفتاری کو شہ سرخی بناتا ہے مگر بریت کو صفحۂ آخر پر دفن کر دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے بے گناہ ہونا خود ایک جرم بن گیا ہو۔

رہائی کے بعد عبد الوحید نے وہ قلم دوبارہ اٹھایا جو کبھی بچوں کے نام لکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس نے “بے گناہ قیدی” کے نام سے کتاب لکھی، جس میں قید کی صلیب، امید کی کرن اور صبر کی کہانی بسی ہوئی ہے۔ اب وہ جیلوں اور انصاف پر تحقیق کر رہا ہے، مگر سماج آج بھی اس کے نام کے ساتھ وہی سایہ جوڑتا ہے—“دہشت گرد”۔ ایک ایسا لفظ جو بریت کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جب کسی نے پوچھا کہ آپ نے دس برس بعد ہی ہرجانہ کیوں مانگا، تو وہ گویا ہوا:
“جب تک میرے تمام ساتھی بے قصور ثابت نہیں ہوتے، میری رہائی ادھوری ہے۔”
2025 کے ہائی کورٹ کے فیصلے نے اس کے صبر کو عدالتی معنی دیے، مگر وقت جو چھن گیا، وہ کون واپس کرے گا؟

یہ مقدمہ ملک کے قانون، سیاست، اور ضمیر تینوں کو جھنجھوڑتا ہے۔ غلط قید کا ازالہ محض وقتی راحت سے نہیں ہو سکتا۔ ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے بااختیار معاوضاتی نظام تشکیل دیا جائے، جھوٹے مقدمات بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو، اور انصاف کی لمبی راہوں پر پھسلتی روحوں کو سنا جائے۔ عبد الوحید کا نو کروڑ کا مطالبہ شاید کبھی پورا نہ ہو، مگر اس کی قدر روپے میں نہیں، احساس میں ہے۔ یہ آواز کہتی ہے کہ اگر آزادی کو بارود سے محفوظ رکھنا ہے، تو انسانیت کو بھی امان میں لینا ہوگا۔

عبد الوحید شیخ کی داستان صرف ایک مقدمے کی روداد نہیں بلکہ وقت کے چہرے پر لکھا وہ سوال ہے جس کا جواب ابھی باقی ہے—کتنے اور عبد الوحیدوں کی زندگی مٹانی ہوگی، تاکہ ریاست یہ سمجھ سکے کہ سلامتی کا مطلب انسان کی قربانی نہیں، اس کی حفاظت ہے۔


No comments:

Post a Comment

سورۃ کہف

علم اور معرفت کی دنیا میں انسان جتنا آگے بڑھتا ہے، اتنا ہی اُسے اپنی سمت کو درست رکھنے کے لیے رہنمائی کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سو...