Saturday, 15 November 2025

فولادی ارادے، نازک قسمت — اندرا گاندھی کی کہانی

*از : جمیل احمد ملنسار* بنگلور
9845498354 
آج کے دن، 31 اکتوبر  کو، اندرا گاندھی کے المناک قتل کی اکتالیسویں برسی کے موقع پر پیش کردہ میرا خراجِ عقیدت پر مبنی مضمون۔   

ہندوستان کی تاریخ میں چند شخصیات ایسی ہیں جن پر رائے دینا ہر شخص اپنا حق سمجھتا ہے۔ اندرا گاندھی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ کچھ انہیں دیوی درگا کہتے تھے، جو عدمِ فیصلہ کے عہد میں فیصلے کرنے والی عورت تھی، اور کچھ کے نزدیک وہ آمر تھی، جس نے جمہوریت کو اپنے عزم اور انا کے تابع کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ دونوں تھیں — نجات دہندہ بھی، اور سزا دینے والی بھی۔

اندرا کو غربت یا گمنامی نے نہیں تراشا، بلکہ ایک خاص شاہانہ فضا میں ان کی شخصیت نے جنم لیا۔ پنڈت نہرو کی بیٹی ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ ان کے سیاسی رفقا نے انہیں “گونگی گڑیا” کہا، مگر جب وہ بولیں تو سارا منظر بدل گیا۔ ان کی خاموشی میں ایک ایسی طاقت چھپی تھی جس نے مرد سیاست دانوں کو بے بس کر دیا۔ جب کانگریس دو حصوں میں بٹی، تو اندرا نے واضح کر دیا کہ وفاداری اب پارٹی سے نہیں بلکہ ان سے ہے۔ رفتہ رفتہ ہندوستان کی سیاست ایک عورت کے گرد سمٹنے لگی۔

ان کی شخصیت میں عوامی میل جول کم، وقار زیادہ تھا۔ نہرو فلسفیوں کے دوست تھے، شاستری کسانوں کے محبوب، مگر اندرا ایک اکیلے وجود کی علامت تھیں۔ ان کا انداز، ان کی چال، یہاں تک کہ ان کا خاموش رہنا بھی ایک سیاسی بیان تھا۔ سادہ سفید ساڑھی ان کے ضبط، نظم، اور خوداعتمادی کی علامت بن گئی۔ وہ جانتی تھیں کہ طاقتور عورت کو مسکراتے ہوئے کم، خاموش رہ کر زیادہ بامعنی ہونا پڑتا ہے۔

مگر یہی مضبوطی ان کی کمزوری بھی بنی۔ ایمرجنسی کے دنوں میں انہوں نے جمہوریت سے کہا کہ تھوڑا صبر کرو، آزادی وقتی طور پر مؤخر ہو سکتی ہے۔ انہی دنوں ملک نے جانا کہ قوت اور آمرانہ روش میں کتنا باریک فاصلہ ہوتا ہے۔ 1977 میں جب وہ اقتدار سے محروم ہوئیں تو عوام نے صرف ان کے فیصلوں کو نہیں بلکہ ان کے غرور کو مسترد کیا۔ مگر وہ لوٹ آئیں — زخمی، مگر شکستہ نہیں۔ اندرا ہمیشہ لوٹتی تھیں، جیسے تقدیر بھی ان سے معافی مانگتی ہو۔

ان کی اصل علامت ان کے کارناموں سے زیادہ ان کے وجود میں تھی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ قیادت کا لباس ساڑھی بھی ہو سکتا ہے، کہ ایک عورت فوجی سلام قبول کر سکتی ہے، اور پارلیمنٹ میں بغیر چیخے کمرہ خاموش کرا سکتی ہے۔ اندرا نے ہندوستانی عورت کو بتایا کہ بلند عزائم گناہ نہیں، بقا ہیں۔ مگر ان کی کہانی ایک انتباہ بھی ہے — کہ جب طاقت شخصی ہو جائے تو دیوی بھی اپنے ہی سایے سے ڈرنے لگتی ہے۔

ان کی موت تقدیر کی لکھی ہوئی سطر تھی — انہی ہاتھوں سے گولی کھا کر جنہوں نے انہی کو روز سلام کیا تھا۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ “میرا خون ہندوستان کی مٹی کو طاقت دے گا۔” شاید دیا۔ مگر اس نے یہ بھی یاد دلا دیا کہ یہ ملک اپنے قائدین سے محبت نہیں کرتا، صرف ان کے زوال پر ماتم کرنا جانتا ہے۔
مضمون نگار ال انڈیا ملّی کونسل کے مرکزی رکن ہیں۔

Friday, 14 November 2025

نتیش کمار کی دسویں واپسی: بہار کی سیاست کا ضدی مستقل







تحریر: جمیل احمد ملنسار
موبائل: 9845498354

بہار، جہاں سیاست ہمیشہ غیر متوقع موڑ لیتی ہے، وہاں نتیش کمار ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو ہر اتھل پتھل کے درمیان ایک مستقل نشان کی طرح قائم رہے۔ اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہے، رہنما ابھرے اور گرے، وفاداریاں بدلتی رہیں—مگر ایک تار ایسا بھی ہے جو گزشتہ پچیس برسوں سے ان تمام اتار چڑھاؤ کے ساتھ جڑا ہوا ہے: نتیش کمار کی خاموش مگر پُراعتماد موجودگی۔

اگر وہ اس بار پھر حلف اٹھاتے ہیں تو یہ ان کی بطور وزیر اعلیٰ دسویں مدت ہوگی—جو خود ہندوستانی سیاسی تاریخ میں ایک غیر معمولی ریکارڈ ہے۔ ان کا پہلا دورِ اقتدار سنہ 2000 میں صرف سات دنوں پر محیط تھا، ایک ایسا مختصر تجربہ جسے اُس وقت شاید کسی نے سنجیدگی سے نہ لیا ہو۔ لیکن آج، دو دہائیاں بیت جانے کے بعد، وہ بہار کے سب سے دیرپا رہنما کے طور پر سامنے ہیں—کبھی تھکے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، کبھی خاموش، مگر کبھی غیر متعلق نہیں ہوتے۔
انجینئرنگ سے سیاست تک کا سفر

1951 میں بختیارپور میں پیدا ہونے والے نتیش کمار نے پٹنہ کے بہار کالج آف انجینئرنگ سے گریجویشن کیا۔ اُس زمانے میں تکنیکی تعلیم یافتہ افراد کا سیاست میں قدم رکھنا غیر معمولی بات تھی۔ مگر اس نوجوان انجینئر نے پیشہ ورانہ زندگی کے بجائے عوامی خدمت کا راستہ چُنا۔

1980 کی دہائی کے آخر میں وہ پارلیمنٹ پہنچے اور 1990 کی دہائی تک مرکزی سیاست میں نمایاں ہو گئے—ریلوے، زراعت اور سڑک و ترسیل جیسے محکموں کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

انھیں قریب سے جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ ایک سوچے سمجھے، متوازن فیصلہ کرنے والے اور کم جذباتی رہنما ہیں—یہی وہ اوصاف ہیں جنہوں نے انہیں ذات پات اور مفادات کی پیچیدہ گتھیوں میں الجھی سیاستِ بہار میں کسی طرح قائم رکھا۔
ذاتی زندگی، خاموشی اور سادگی

سیاست کے شور سے الگ، نتیش کا ذاتی جہان حد درجہ خاموش ہے۔ 1973 میں منجو کماری سنہا سے ان کی شادی ہوئی، مگر بیگم کی وفات کے بعد وہ رفتہ رفتہ زیادہ گوشہ نشین ہوتے گئے۔ ان کا اکلوتا بیٹا، نشاط کمار، ہمیشہ عوامی زندگی سے دور رہا، البتہ حالیہ برسوں میں یہ قیاس ضرور کیا گیا کہ وہ ہرنوت سے انتخاب لڑ سکتے ہیں—یعنی باپ کی پرانی نشست سے۔ چاہے یہ سچ ہو یا محض قیاس، اس خاندان کی سیاسی شناخت آج بھی صرف ایک ہی نام سے وابستہ ہے—نتیش کمار۔
صحت کی بحث اور انسانی پہلو

طویل قیادت کے ہر سفر میں صحت کا سوال لازمی ابھرتا ہے۔ پرشانت کشور نے کہا تھا کہ وہ "جسمانی طور پر تھک چکے ہیں"، جبکہ تیجسوی یادو نے انہیں "تھکا ہوا وزیر اعلیٰ" قرار دیا۔ بی جے پی کے رکنِ پارلیمان منوج تیواری نے اس پر رحم دلی سے کہا کہ "وزیر اعلیٰ کچھ کمزور سے ہیں، مگر صحت کو سیاست نہ بنایا جائے۔"

یہ سب فطری باتیں ہیں۔ تقریباً بیس برس تک ایک پیچیدہ ریاست کی قیادت کرتے رہنا، مختلف اتحاد سنبھالنا، تھکا دینے والا کام ہے۔ مگر ہر شکست کے بعد ان کا لوٹ آنا—مزید محتاط، مزید حقیقت پسند—انہی کا امتیاز ہے۔
ایک ضدی مستقل کی میراث

نتیش کمار کا سفر صرف سیاسی پائیداری نہیں، بلکہ مزاحمت اور انطباق کی کہانی ہے۔ ہر اتحاد—چاہے بی جے پی سے ہو یا آر جے ڈی سے—انہوں نے بہار کی ترقی، سڑکوں کے جال اور نظم و نسق کی بہتری کو اپنی شناخت بنایا۔ ناقدین انہیں موقع پرست کہتے ہیں، حامی انہیں حالات کے مطابق قائد سمجھتے ہیں۔

شاید دونوں ٹھیک ہیں۔ شاید نتیش کی اصل طاقت ان کی لچک میں ہے، ان کی اس فن کارانہ صلاحیت میں کہ وہ ہر طوفان میں کشتی کو کنارے پر رکھتے ہیں۔

جب 2025 کے انتخابی نتائج منظر عام پر آئیں گے، تو نعرہ “بہار کا مطلب نتیش کمار” کسی حد تک تھکا دینے والا ضرور محسوس ہوگا، مگر اس کے پیچھے برسوں کی مستقل مزاجی، محنت اور سیاست کی نازک بصیرت پوشیدہ ہے۔

دس بار وزارتِ اعلیٰ کسی کے لیے بہت زیادہ ہو سکتا ہے—مگر بہار جیسی ریاست میں، جہاں سیاسی استحکام ایک نایاب نعمت ہے، نتیش کمار کی یہی ضدی مستقل مزاجی شاید ان کی سب سے پائیدار کامیابی بن جائے۔



Nitish Kumar 10th Time? The Reluctant Constant of Bihar Politics


Nitish Kumar 10th Time? The Reluctant Constant of Bihar Politics


By Jameel Aahmed Milansaar 

Mobile ; 9845498354


In a state where politics thrives on unpredictability, Nitish Kumar remains the one enduring constant. Bihar has witnessed alliances form and break, leaders rise and fall, and party loyalties test gravity itself—but one thread has run through it all for nearly 25 years: Nitish Kumar’s quiet, methodical presence at the helm.

If he takes oath this time, it will mark his tenth stint as Chief Minister—an extraordinary record even by Indian political standards. His career began with a brief seven-day tenure in 2000, a political cameo that few took seriously then. Yet, two decades later, he stands as Bihar’s most durable political figure—worn, occasionally weary, but never irrelevant.
From Engineering Circuits to Political Circles

Born in Bakhtiarpur in 1951, Nitish Kumar graduated in engineering from Bihar College of Engineering, Patna. It was a time when technocrats rarely entered politics, yet the young engineer chose public life over a stable profession. He entered Parliament in the late 1980s and by the 1990s had established himself in national politics, serving as Union Minister for Railways, Agriculture, and Surface Transport.

Those who have seen him work describe him as a leader of deliberate pace, precise choices, and rare emotional display—traits that perhaps helped him survive Bihar’s whirlpool of caste arithmetic and alliance fragility.
The Personal and the Political

Off-stage, Nitish’s life has been remarkably private. He married Manju Kumari Sinha in 1973; her passing years later left him visibly changed, retreating further into the solitude of public duty. His only son, Nishant Kumar, has largely stayed away from political life, though recent speculation suggested he might contest from Harnaut—Nitish’s own old constituency. Whether that happens or not, the family’s political legacy remains synonymous with the father’s name alone.
The Health Question and the Human Factor

As in every long leadership journey, questions about Nitish Kumar’s health have surfaced. Political strategist Prashant Kishor termed him “physically tired,” while RJD’s Tejashwi Yadav called him “a tired Chief Minister.” BJP MP Manoj Tiwari, on the other hand, appealed for compassion, admitting that the CM seemed “a bit unwell” but insisting that health should not become politics.

It is perhaps natural. Leading a complex state for nearly twenty years, often balancing competing coalitions, would exhaust any leader. Yet, his ability to return from political setbacks—each time more understated, more pragmatic—continues to define his image.
The Legacy of a Reluctant Constant

Nitish Kumar’s story is more than political endurance; it is about persistence in the face of changing wind directions. For every alliance he has joined—whether with the BJP, RJD, or others—he has maintained a moral anchor in development politics, road connectivity, and law and order. Critics accuse him of ideological drift; supporters call him adaptable to Bihar’s unique political climate.

Perhaps both are true. Perhaps Nitish Kumar’s resilience lies not in rigidity but in his capacity to keep the ship afloat in turbulent waters.

As Bihar’s 2025 verdict unfolds, the slogan “Bihar ka matlab Nitish Kumar” rings with both admiration and fatigue. He is the chief minister who seems reluctant to stop, even when the journey has tested both his body and spirit.

Ten times may sound excessive for any leader—but in Bihar, where stability is the rarest politician’s virtue, Nitish Kumar’s constancy might just be his most enduring achievement.

The Writer is All India Milli Council Central Member

Tuesday, 11 November 2025

زوہران ممدانی: ایک غیر متوقع میئر اور نئی سیاسی صبح






نیویارک شہر کی گہماگہمی، اس کے شور و شغب اور پیچیدہ سیاسی منظرنامے میں کچھ کہانیاں ایسی ہیں جو دل و دماغ کو یکساں طور پر اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ انہی میں سے ایک ہے زوہران ممدانی کی کہانی — ایک نوجوان، پُرجوش اور ترقی پسند رہنما کی، جو ریاستی اسمبلی کے رکن کے طور پر اپنی پہچان بنانے کے بعد حیرت انگیز طور پر میئر کی کرسی تک جا پہنچے۔

اگرچہ ان کا باضابطہ عہدہ تاحال کویِنس کے چھتیسویں ضلع کی نمائندگی کرنے والے ریاستی اسمبلی ممبر کا ہے، مگر عوامی مباحثوں اور سیاسی قیاس آرائیوں میں وہ پہلے ہی "نیویارک کے آنے والے میئر" کے طور پر زیرِ گفتگو ہیں — اور یہی بات اس بات کی گواہی ہے کہ ممدانی نے روایتی سیاسی راستوں سے ہٹ کر ایک نیا، غیر معمولی سفر اختیار کیا ہے۔

ممدانی کی سیاست جڑوں سے اُبھری ہوئی ہے — عوامی تحریکوں، جمہوری سوشلسٹ نظریات، اور ان گنت عام لوگوں کی آرزوؤں سے بنی ہوئی سیاست۔ ان کی حالیہ میئر کی حیثیت سے فتح، جو بیشتر ماہرین کے لیے ناقابلِ یقین تھی، محض ذاتی کامیابی نہیں بلکہ ایک نئے سیاسی مزاج کی آمد کا اشارہ ہے — ایسا مزاج جو ترقی پسندی، شمولیت اور نسلی و فکری تنوع پر مبنی ہے۔

"غیر متوقع میئر" کی کہانی دراصل کسی ایک شخص کے عہدہ سنبھالنے کی نہیں، بلکہ اس علامت کی ہے جو وہ اپنے ساتھ لاتے ہیں — ایک نئے سیاسی سانچے کی تشکیل۔
ان کا منشور سادہ مگر انقلابی ہے: سستی رہائش، مزدوروں کے حقوق، بچوں کی عالمگیر نگہداشت، اور عوامی تحفظ کا نیا تصور۔ ان نعروں نے نیویارک کے مختلف طبقات کو ایک نکتے پر اکٹھا کر دیا ہے — وہ سب جو تبدیلی کے خواہاں ہیں، جنہیں ممدانی میں اپنی محرومیوں اور خوابوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

ممدانی کی ممکنہ میئرشپ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سیاست کے راستے اب کسی سیدھی لکیر پر نہیں چلتے۔
یہ زمانہ ان رہنماؤں کا ہے جو روایتی سیاسی کارخانوں سے نہیں بلکہ محلّوں، جلسوں اور دلوں سے ابھرتے ہیں — وہ جو نوجوان توانائی کو عملی بصیرت کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
ممدانی کا سفر، اسمبلی سے میئر کی طرف، اس نئی سیاست کی علامت ہے جس میں حیرت اب استثنا نہیں، معمول بن چکی ہے۔

آنے والے دنوں میں زوہران ممدانی کی کہانی شاید میئر کے عہدے کی آزمائش سے کم اور اس وعدے سے زیادہ جڑی ہوگی جو ان کی قیادت اپنے اندر رکھتی ہے — ایک ایسا وعدہ جو سیاسی جدت، شمولیت اور اصلاح کا پیامبر بن سکتا ہے۔
ان کی کامیابی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ قیادت کے معنی شاید بدل چکے ہیں، اور اب راستے وہ نہیں جو ماضی میں طے کیے گئے تھے۔

یوں "غیر متوقع میئر" کا عنوان کسی عجلت یا مبالغے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک دعوت ہے — دعوتِ غور و فکر:
کہ ہم اس سیاسی سفر کو قریب سے دیکھیں جو شاید قیادت کے نئے معنی رقم کرے،
ایک ایسے عہد میں جو تبدیلی کا بھوکا ہے۔



Abul Kalam Azad Tamil

Monday, 10 November 2025

مولانا ابوالکلام آزاد کی چائے کی محبت اور زندگی کی سادگی

9845498354جمیل احمد  ملنسار، بنگلور۔


مولانا ابوالکلام آزاد اپنی پوری زندگی میں صرف ایک عظیم سیاستدان اور ہندوستان کے ممتاز تحریک آزادی کے مجاہد ہی نہیں بلکہ علم و ادب کے وہ بلند پایہ ستارہ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنے قلم سے نسلوں کو روشنی دکھائی بلکہ اپنی زندگی کے روزمرہ معمولات میں ایک خاص مطابقت اور ضبط بھی رکھی۔ ان کی زندگی کی ایک دلفریب اور دل چسپ روایت ان کی چائے کی محبت ہے، جو ان کے متحرک اور پیچیدہ کردار کے بالمقابل ان کی سادگی اور وقت کی قدر کی گواہ ہے۔


مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ کہنا کہ وہ صبح صادق سے پہلے اپنی چینی جاسمین چائے خود بناتے تھے، اس وقت گھر میں کسی کو جگائے بغیر، ان کی خود انحصاری، اصول پسندی اور اپنے آپ کو وقت دینے کی صلاحیت کی نشانی ہے۔ گھر کی خاموشی میں چائے کی خوشبو، ان کے ذہن کی مشقتوں میں ایک نرم لمحہ تھا، جو کسی بھی بڑے سیاسی فیصلے سے کم اہمیت نہیں رکھتا تھا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی ولادت 1888 میں مکہ مکرمہ میں ہوئی، جہاں ان کا خاندان اسلام کے علمی روایات کا بانی تھا۔ ان کے والد، مولانا خیر الدین، ایک معروف عالم تھے جن کے زیر تربیت انہوں نے اپنی علمی بنیادیں مضبوط کیں۔ عربی، فارسی اور اردو ثقافتوں کے گہرے اثرات نے ان کی ذوق میں ایک انوکھا رنگ بھرا جس میں چائے کی خاص پسند—چینی جاسمین چائے—بھی شامل تھی۔ اپنے نوجوانی کے دور میں انہوں نے صحافت کا آغاز کیا اور آزادی کی تحریک میں مسلم اور ہندو برادری کو متحد کرنے کی کوشش کی۔
ان کے روزانہ کے معمولات میں چائے ایک مقدس رسم تھی۔ وہ خود اٹھتے اور بغیر دودھ یا چینی کے صرف سفید چینی جاسمین چائے پکاتے۔ یہ ان کی سادگی، خوداعتمادی اور دوسروں کو تکلیف نہ دینے کی عکاسی کرتا تھا۔ ان کا مذہب اور شخصیت ان کے اس معمول میں جھلکتا تھا، جہاں چائے کے چند کپ ان کی سوچ اور غور و فکر کا ذریعہ بنتے۔
ان کے سیاسی اور سماجی زندگی میں بھی چائے کا ذکر آتا ہے۔ گاندھی جی، نہرو اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں اکثر چائے کا تذکرہ ہوتا تھا، جو ان کے سماجی روابط اور ثقافتی شناخت کی عکاسی کرتا تھا۔ برطانوی راج میں چائے کی ثقافت عام تھی، مگر مولانا آزاد کی پسندیدہ چائے چینی جاسمین تھی جو ان کے عالمی روح اور ہندوستانی پہچان کے امتزاج کو ظاہر کرتی ہے۔ اس زمانے کے ادیبوں اور دانشوروں میں بھی چائے کا ایک خاص سحر تھا جس نے ان کے تخلیقی اور فکری کاموں کو متاثر کیا۔
مولانا آزاد کی چائے کی محبت انہیں صرف ایک سیاسی شخصیت تک محدود نہیں رکھتی بلکہ انھیں ایک رہنما کے ساتھ ساتھ ہم جیسا آدمی بناتی ہے۔ ان کے بارے میں لکھی گئی کتب اور سوانح میں یہ پہلو اکثر سامنے آتا ہے کہ یہ معمولی سی عادت ان کی زندگی کی سنجیدگی اور روحانی سکون کا اظہار تھی۔ آج بھی ان کی چائے کی یہ روایت ان کی شخصی زندگی کی سادگی، نظم و ضبط اور خوشی کا مظہر ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا وصال 1958 میں ہوا لیکن ان کی یادگار ریاستی خدمات، تعلیمی اصلاحات اور آزادی کی جدوجہد میں ان کے کردار کے علاوہ ان کی چائے کی محبت نے انسانوں کے دلوں میں ایک الگ جگہ بنائی ہے۔ ان کی زندگی کی یہ ایک منفرد روایت، ان کے علمی اور سیاسی مراحل میں توازن کی داستان سناتی ہے اور ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ بڑے خیالات رکھنے والے لوگ بھی چھوٹے چھوٹے خوشیوں میں گہرائی اور محبت پا سکتے ہیں۔
لہٰذا، جب بھی ہم چائے کے کپ کے ساتھ کوئی لمحہ گزاریں تو مولانا آزاد کی اس روایت کو یاد رکھیں جو محض ایک شاعرانہ عادت نہیں بلکہ ایک جذبہ، وقت کی قدر، اور زندگی کی گہری صحیح تصویر پیش کرتی ہے۔ ان کے اس انسانی پہلو کو جان کر ہمیں عشروں پرانے قصے نہ صرف یاد آئیں گے بلکہ وہ ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہوں گے۔

تیغ و ایمان کے علمبردار- ٹیپو سلطان: وہ جو جھکا نہیں





ٹیپو سلطان کی زندگی اور جدوجہد کا آج کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں تقابلی جائزہ لینا نہایت اہم ہے۔ ان کا اصولِ عدم تعاون برطانوی حکمرانی سے آزادی کے لیے ایک مضبوط پیغام تھا، جو آج بھی قوموں کی خودمختاری کے دفاع میں ہمیں روشنی فراہم کرتا ہے۔

آج کے ہندوستان میں، جہاں آزادی کی تحریک نے نئی شکلیں اختیار کر لی ہیں، ٹیپو سلطان کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قومی وقار اور خودمختاری صرف نصاب کی کتابوں کا حصہ نہیں بلکہ ایک زندہ جذبہ ہے جو ہر دور میں قابلِ حفاظت رہتا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں جب مقامی اور عالمی سطح پر خودمختاری کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، ٹیپو کی مثال ہمیں استقلال اور جذبے کے ساتھ اپنی شناخت اور حق کے لیے کھڑے ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔

ٹیپو سلطان کی حکمرانی میں جس طرح انہوں نے اپنے دور کے عالمی سیاست کے تقاضوں کو سمجھا اور مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کیے، وہ آج کے سفارتی توازن اور عالمی تعلقات سے بھی ہم آہنگی رکھتا ہے۔ یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ خودمختاری کا دفاع صرف عسکری محاذ تک محدود نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سفارتی جنگ بھی ہے۔

آج کی نسل کو چاہیے کہ وہ ٹیپو سلطان جیسے تاریخی رہنماؤں کے اصولوں سے سیکھے، جو صرف جبر کے خلاف مزاحمت نہیں بلکہ ایک جدید، خودمختار اور ترقی پسند معاشرہ قائم کرنے کی جدوجہد بھی تھے۔ ایسے قائدین کی یاد میں نہ صرف

اٹھارویں صدی کے آخر میں جب برصغیر پر برطانوی سامراج کا سایہ پھیلنا شروع ہوا تو جنوبی ہند سے ایک ایسی شخصیت ابھری جس نے سامراجی طاقتوں کے غرور کو للکارا۔ یہ شخصیت ٹیپو سلطان کی تھی — ’’شیرِ میسور‘‘، جنہوں نے اپنی بصیرت، جرأت اور سیاسی فراست سے حریتِ وطن کی ایک لازوال داستان رقم کی۔

ٹیپو سلطان 1751 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عمر ہی سے ان کی تربیت علم، جنگی حکمتِ عملی اور خودداری کے اخلاق پر ہوئی۔ والد حیدر علی کے بعد جب 1782 میں انہوں نے میسور کی باگ دوڑ سنبھالی تو انہوں نے ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو ترقی، عدل اور عسکری قوت کا مرکز بن گئی۔

ان کے دورِ حکومت میں مالی نظم بہتر ہوا، زراعت و صنعت کو فروغ ملا، اور سڑکوں اور قلعوں کے نظام میں نمایاں ترقی ہوئی۔ ان کا سب سے انقلابی کارنامہ جنگی راکٹوں کی تیاری تھی جس نے اس دور کے جدید ترین ہتھیاروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ مورخین مانتے ہیں کہ یہی تجربات بعد میں یورپی فوجی ٹیکنالوجی کی بنیاد بنے۔

ٹیپو سلطان نہ صرف ایک بادشاہ تھے بلکہ اپنی فکر میں ایک سیاسی مفکر بھی تھے۔ انہوں نے جان لیا تھا کہ انگریزوں کی تجارت دراصل سیاسی قبضے کی پیش خیمہ ہے۔ اسی لیے انہوں نے فرانس اور ترکی جیسے ممالک سے اتحاد کر کے برطانوی برتری کے خلاف ایک بین الاقوامی توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔

انگریزوں کے لیے ٹیپو سلطان ایک ناقابلِ تسخیر رکاوٹ تھے۔ مرہٹوں اور نظامِ حیدرآباد کو ساتھ ملا کر برطانوی قوتوں نے چار جنگیں لڑی، مگر ٹیپو نے ہر معرکہ میں برتری اور جرأت کا علم بلندی پر رکھا۔

1799 کی چوتھی جنگ میں جب سرنگاپٹنم کا پہاڑوں جیسا قلعہ دشمن کے محاصرے میں آیا تو ٹیپو سلطان نے آخری سانس تک میدانِ جنگ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ شہید ہوئے مگر جھکے نہیں۔ ان کی زندگی نے ثابت کیا کہ عزت کی موت غلامی کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔

ٹیپو سلطان کے بعد ان کی سلطنت کو تقسیم کر دیا گیا، مگر ان کی قربانی نے ہندوستان کی آزادی کی آگ کو ایک نئی روشنی دی۔ وہ محض ایک حکمران نہیں، ایک کردار تھے — جنہوں نے یہ سکھایا کہ قوموں کی زندگی میں خودداری ہی وہ جوہر ہے جو غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکتا ہے۔

ٹیپو سلطان کے یہ الفاظ آج بھی تاریخ کی دیواروں سے گونجتے ہیں:
“شیر کی ایک دن کی زندگی، بھیڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔”
آج جب ہم اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان کی جدوجہد محض ایک شخص کی نہیں، تاریخی فہم بلکہ آج کے مسائل کے حل کے لیے بھی رہنمائی پنہاں ہے۔

Tipu Sultan: The Fearless King Who Defied the British

In late 18th-century India, a determined king from the south became one of the greatest obstacles to British ambitions: Tipu Sultan, famously known as the “Tiger of Mysore.” His story is a thrilling tale of resistance, innovation, and military brilliance.

Tipu’s Early Days

Born in 1751, Tipu Sultan was the eldest son of Hyder Ali, a commander who seized power in Mysore and built it into a strong kingdom. Even as a young prince, Tipu showed extraordinary talent—studying the Quran, mastering languages, and learning the arts of war and diplomacy from early childhood. By the time he was seventeen, he was already entrusted with key military tasks and had a front-row seat to the political struggles of southern India.
A Visionary Leader

Tipu Sultan was not just a fighter; he was a reformer. Once he became king in 1782, he transformed Mysore with bold ideas: reorganising taxes, encouraging industry, building new roads, and inventing new ways to wage war. Under his rule, Mysore prospered and became famous for silk production and rocket technology. Tipu’s rockets made headlines—not only for their impact in battle, but also because British soldiers would later study them and develop their own.
The British Fear

Why was Tipu Sultan such a problem for the British East India Company?


First, Mysore’s location blocked the British from joining their southern territories; Tipu’s army threatened crucial trade and travel routes.



Second, Tipu refused to cooperate or compromise, consistently resisting British pressure and expanding his own reach, even reaching out for help from France and Turkey to create stronger alliances.


Finally, his charisma and bold leadership inspired others to resist colonial rule, causing the British to worry about a wider revolt.
The Grand Alliance Against Tipu

The British soon realized they couldn’t bring Tipu down alone. So they formed a powerful alliance—with the Marathas and the Nizam of Hyderabad, rivals of Mysore who also wanted a share of power. Together, they pledged to defeat Tipu and divide his kingdom.
The Marathas brought resources and armies from western India.
The Nizam provided additional troops and political support.

In exchange, the British offered to split Mysore’s lands and keep their new partners happy.

The Last Stand

The final conflict came in the Fourth Anglo-Mysore War (1799). Tipu Sultan faced an army of nearly 50,000 led by British generals, alongside thousands of Maratha and Nizam soldiers. Against overwhelming odds, Tipu defended his capital, Srirangapatna, with heroism. Tragically, he was killed fighting at the gates—never surrendering, never fleeing.

With Tipu’s death, his sons were exiled, and the once-great Mysore kingdom was carved up among the victors. The British gained total control over southern India, laying foundations for the Raj that would rule the country for over a century.
Remembering Tipu Sultan


Tipu Sultan’s legacy endures. He is celebrated for his courage, his vision, and his refusal to live under foreign rule. His innovations—rocketry, progressive administration, and diplomatic outreach—were ahead of their time. He embodied the spirit of resistance, inspiring freedom fighters long after his fall.

Indians remember Tipu not just as a regional king, but as a national hero who stood up against the most powerful force of his era. The words allegedly spoken by him still inspire: “It is better to live like a tiger for one day than live like a sheep for a hundred years”.

Tipu Sultan, the Tiger of Mysore, left behind a story for the ages—a story of a king who dared to challenge empire, and whose roar echoes in history’s memory.


The Last Effort of Tippoo Saib at Seringapatam by B. Clayton, 1840

Saturday, 8 November 2025

فکرِ حریت کے تین مینار — ٹیپو سلطان، علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد


تاریخ کے افق پر جب ہم اُن شخصیات کو تلاش کرتے ہیں جنہوں نے ملتِ اسلامیہ ہند کے دل و دماغ میں حریت، خودی اور ایمان کی شمع روشن کی، تو تین درخشاں نام نظر آتے ہیں —
ٹیپو سلطان (۱۰ نومبر ۱۷۵۰)، علامہ محمد اقبال (۹ نومبر ۱۸۷۷)، اور مولانا ابوالکلام آزاد (۱۱ نومبر ۱۸۸۸)۔
یہ تینوں اگرچہ زمان و مکان کے اعتبار سے جدا ہیں، مگر فکر و جذبے کی رُوح میں ایک ہیں۔
ایک نے تلوار سے غلامی کو چیلنج کیا، دوسرے نے قلم سے خوابِ بیداری جگایا، اور تیسرے نے زبان و عمل سے ملت کے دلوں میں حریت کی آگ بھڑکائی۔
یوں یہ تینوں ایک ہی شعلۂ صداقت کے امین ہیں —
 آزادی، خودداری، اور ایمان کے۔ٹیپو سلطان: عزم و قربانی کا استعارہ
ٹیپو سلطان تاریخِ ہند کا وہ مردِ آہن ہے جس نے غلامی کو گناہ سمجھا اور استعمار کے آگے سر جھکانے کے بجائے اپنی جان قربان کر دی۔
شیرِ میسور نے اپنے خون سے یہ پیغام لکھا




“شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔”


ٹیپو سلطان کی زندگی صرف میدانِ جنگ کی داستان نہیں، بلکہ ایمان، خودداری، غیرت اور حبِ وطن کا ایک لازوال درس ہے۔
اس کی روح میں وہی آتشِ عشقِ وطن تھی جو بعد کے مفکرین کے دلوں کو منور کرنے والی روشنی بن گئی۔
علامہ اقبال پر ٹیپو کے اثرات


علامہ اقبال کی شاعری میں جہاں رومی کی معنوی گہرائی ہے، وہیں ٹیپو سلطان کی شجاعت کا ولولہ بھی جھلکتا ہے۔
اقبال نے ٹیپو کو صرف ایک سپہ سالار نہیں، بلکہ ایک مومنِ مجاہد کے طور پر دیکھا —
وہ مردِ مومن جو موت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ شہادت ایک ابدی حیات ہے۔


اقبال نے فرمایا:




“وہ ایک سچا مسلمان بادشاہ تھا، جس نے اپنی قوم کے لیے زندگی نہیں، موت کو پسند کیا۔”


ٹیپو سلطان کے کردار کی روح اقبال کے کئی اشعار میں جھلکتی ہے:




قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات


اور




نکل کے خلد سے آدم نے کی تھی کچھ تدبیر
کہ اپنے واسطے جنت پھر ایک بار کرے


یہ اشعار دراصل اقبال کی اُس فکری دنیا کا آئینہ ہیں جس میں “انکار” اور “اقدام” کا جوہر زندہ ہے۔
اقبال کے نزدیک مومن وہ نہیں جو تقدیر کے سامنے سر جھکا دے، بلکہ وہ ہے جو تقدیر کو بدلنے کی جرأت رکھتا ہو —
اور یہی ٹیپو سلطان کی اصل روح تھی۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا زاویۂ نظر


مولانا آزاد کی تحریروں میں ٹیپو سلطان ایک تاریخی ہیرو نہیں، بلکہ ایک فکری و اخلاقی مثالیہ ہے۔
آزاد نے لکھا:




“ٹیپو سلطان نے وہ کر دکھایا جو بہتوں نے سوچا بھی نہیں۔ وہ بادشاہ تھا مگر دل میں درویش کی غیرت رکھتا تھا۔ وہ مجاہد تھا مگر اس کا ہتھیار ایمان سے کند نہیں ہوا۔”


مولانا آزاد کے نزدیک ٹیپو کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے “غلامی کو گناہ” قرار دیا۔
آزاد نے اپنی تقاریر میں ٹیپو کو “ہندوستان کی غیرتِ ملی کا پہلا شہید” کہا،
اور باور کرایا کہ ٹیپو کی قربانی کا پیغام آج بھی زندہ ہے —
کیونکہ آج بھی ہم ذہنی و فکری غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
بس زنجیریں بدل گئی ہیں، غلامی کی نوعیت نہیں۔
فکری تسلسل: ٹیپو سے اقبال و آزاد تک


ٹیپو سلطان کی تلوار سے نکلنے والی چنگاریاں اقبال کے قلم میں روشنی بن کر جلوہ گر ہوئیں،
اور آزاد کے بیان میں بیداری کا نعرہ بن گئیں۔
ٹیپو نے جس آزادی کے بیج کو اپنے خون سے سینچا،
اقبال نے اسے فکر میں پروان چڑھایا اور آزاد نے اسے سیاست و تعلیم کے میدان میں برگ و بار عطا کیا۔
یوں یہ تینوں شخصیات ملتِ اسلامیہ ہند کے فکری ارتقاء کے تین مربوط اور روشن ابواب ہیں۔
اختتامیہ: روحِ حریت کا تسلسل


آج جب انسان غلامی کی نئی صورتوں میں گرفتار ہے —
جب دل دولت کے بندھن میں اور ذہن مغربی تقلید میں قید ہیں —
تو ہمیں پھر ان تین میناروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے:
ٹیپو کا عمل، اقبال کا شعور، اور آزاد کی بصیرت۔
یہی تینوں ہماری نجات کا راستہ ہیں۔


اقبال نے گویا آج کے انسان سے بھی یہی کہا تھا:




اٹھا میں مدرسۂ خوں سے لیکر درسِ یقین تک
دیا ہے خونِ جگر نے مجھے سوزِ درونِ مومن


اور پھر فرمایا:




وجودِ زنده نے مرگِ جمیل پیدا کی
یہ راز کوئی سمجھائے کیا شہیدوں کو


یہ اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ قوموں کی زندگی شہادت اور قربانی سے عبارت ہے۔
اگر ہم اپنی روحوں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں،
تو ہمیں ٹیپو کی تلوار، اقبال کی خودی، اور آزاد کی بصیرت کو اپنی رگوں میں دوڑانا ہوگا۔


یہ تینوں شخصیات دراصل ایک ہی چراغ کی مختلف لَو ہیں —
چراغِ ایمان، حریت، اور انسانیت۔
جب تک یہ روشنی قائم ہے، امت کا افق کبھی تاریک نہیں ہو سکتا۔ 🌙






کیا آپ چاہیں گے کہ میں اسی مضمون کا PDF یا اخباری صفحے کی ترتیب (کالموں اور تصویری جگہ کے ساتھ) بھی بنا دوں تاکہ آپ اسے براہِ راست ادبی رسالے یا اخبار میں اشاعت کے لیے بھیج سکیں؟

ಕನಕದಾಸನ ಕಿಂಡಿ: ಸಮಾನತೆಯ ನೋಟ




ಲೇಖನ: ಜಮೀಲ್ ಅಹಮದ್ ಮಿಲನ್ಸಾರ್, ಬೆಂಗಳೂರು – 9845498354

ಪ್ರತಿ ಯುಗವೂ, ತನ್ನ ಕಾಲದ ನೈತಿಕ ಕುಸಿತವನ್ನು ಪ್ರಶ್ನಿಸುವ ಧ್ವನಿಯೊಂದನ್ನು ಜನ್ಮಕೊಡುತ್ತದೆ. 16ನೇ ಶತಮಾನದ ಕರ್ನಾಟಕದಲ್ಲಿ ಆ ಧ್ವನಿ ಕನಕದಾಸರದು — ಮೇಯುತ್ತಿದ್ದ ಕುರಿಗಾಹಿಯ ಮಗನಾದ ಯೋಧ, ನಂತರ ಕತ್ತಿಯನ್ನು ಬಿಟ್ಟು ಶಬ್ದವನ್ನು ಆಯ್ದುಕೊಂಡ ಕವಿ.

ಬಾಡ ಎಂಬ ಹಳ್ಳಿಯಲ್ಲಿ ತಿಮ್ಮಪ್ಪ ನಾಯಕನಾಗಿ ಜನಿಸಿದ ಅವರು ಕುರಬ ಸಮುದಾಯದವರು — ಧಾರ್ಮಿಕ ಅಧ್ಯಯನದ ಮಠಗಳಲ್ಲಿ ಸ್ಥಾನವಿಲ್ಲದ ವರ್ಗದವರು. ಆದರೆ ಅವರ ಜೀವನ ಪಯಣವೇ ಕಾವ್ಯವಾಯಿತು: ಪ್ರಾಬಲ್ಯದಿಂದ ದೂರದ ಹಳ್ಳಿಯಿಂದ ಪ್ರಜ್ಞೆಯ ಬೆಳಕಿಗೆ ಬಂದ ಮನಸ್ಸಿನ ಕಥೆ.

ಕನಕದಾಸರು ಕನ್ನಡದಲ್ಲಿ ಬರೆದರು — ಜನರು ಮಾತನಾಡುತ್ತಿದ್ದ ಭಾಷೆಯಲ್ಲೇ. ಮೋಹನ ತರಂಗಿಣಿ, ನಳಚರಿತ್ರೆ, ರಾಮಧ್ಯಾನ ಚರಿತ್ರೆ ಮತ್ತು ನೂರಾರು ಕೀರ್ತನೆಗಳು ಅವರ ಆತ್ಮಸಾಕ್ಷ್ಯ. ಅವರು ತತ್ವವನ್ನು ಸರಳ ವಾಕ್ಯಗಳಲ್ಲಿ ಬರೆದರು. ಭಕ್ತಿ ಅವರನ್ನು ಧರ್ಮದ ಕಂದಾಯಕ್ಕಿಂತ ಮೇಲೆ ಎತ್ತಿತು; ಸಮಾನತೆ ಅವರಿಗೆ ಶಾಸ್ತ್ರಕ್ಕಿಂತ ಶ್ರೇಷ್ಠವಾಯಿತು; ನೈತಿಕ ಧೈರ್ಯ ಅವರಿಗೆ ಯಾವುದೇ ಆಚರಣೆಯಿಗಿಂತ ಪವಿತ್ರವಾಗಿತ್ತು.

ಅವರ ದೇವರು ದೇವಸ್ಥಾನದ ಒಳಗಿನ ಗರ್ಭಗುಡಿಯಲ್ಲ; ವಿನಯದಲ್ಲಿತ್ತು, ಕರುಣೆಯಲ್ಲಿ ಇತ್ತು, ಪ್ರಾಮಾಣಿಕ ಶ್ರಮದಲ್ಲಿ ಉಸಿರಾಡುತ್ತಿತ್ತು.


ಒಂದು ವಿರೋಧದ ಮೂಲಕದ ಸತ್ಯ

ಕನಕದಾಸರ ಜೀವನವು ತಪಸ್ಸಿನಲ್ಲ, ಪ್ರತಿರೋಧದಲ್ಲಿತ್ತು. ಧರ್ಮದ ಹೆಸರಿನಲ್ಲಿ ಬಾಗಿಲು ಮುಚ್ಚಿದಾಗ, ಅವರು ಕಿಟಕಿಯಿಂದ ಒಳನೋಟ ಪಡೆದವರು. ಉಡುಪಿಯ ಶ್ರೀಕೃಷ್ಣ ದೇವಾಲಯದ ದ್ವಾರ ಅವರಿಗೆ ಮುಚ್ಚಲ್ಪಟ್ಟಾಗ, ದೇವರೇ ತಿರುಗಿ ನೋಡಿದನೆಂಬ ಕನಕನ ಕಿಂಡಿ ಕಥೆ, ಆಳವಾದ ನೈತಿಕ ರೂಪಕ. ಅದು ಒಂದು ಪೌರಾಣಿಕ ಘಟನೆ ಆಗಿರಬಹುದು, ಆದರೆ ಅದರ ಸಾರ ಶಾಶ್ವತ — ದೇವರು ಬಾಗಿಲು ತೆರೆಯುವವನಾಗಿರಬೇಕು, ಮುಚ್ಚುವವನಲ್ಲ.

ಕನಕದಾಸರ ಕಾವ್ಯದಲ್ಲಿ ಹಾಸ್ಯವಿತ್ತು, ವ್ಯಂಗ್ಯವಿತ್ತು, ಮತ್ತು ಸತ್ಯದ ಕಿಡಿಯಿತ್ತು. “ಮೌಂಜಿ ಕಟ್ಟಿ ತಲೆಯ ಮೆಟ್ಟಿದರೂ ಮನ ಅಹಂಕಾರದಿಂದ ಕಟ್ಟಿಹಾಕಿಕೊಂಡಿದ್ದರೆ ಉಪವಾಸ ಏಕೆ?” ಎಂಬ ಪ್ರಶ್ನೆಯಲ್ಲಿ, ಅವರು ಧರ್ಮದ ಮುಖವಾಡಗಳನ್ನು ತೆಗೆಯುತ್ತಿದ್ದರು. ಅವರ ಕವಿತೆಗಳು ಧರ್ಮವನ್ನು ನಿರಾಕರಿಸಿದವು ಅಲ್ಲ — ಅದರ ಒಳಅರ್ಥವನ್ನು ಮತ್ತೆ ಜೀವಂತಗೊಳಿಸಿದವು.


ಅವರ ಸಂದೇಶದ ಒಳಹಾದಿ

ಜಾತಿಯು ಪೂಜೆಗೆ ಹಕ್ಕು ನಿರ್ಧರಿಸುತ್ತಿದ್ದ ಕಾಲದಲ್ಲಿ, ಕನಕದಾಸರ ವಚನಗಳು ಧೈರ್ಯದ ಘೋಷಣೆಯಂತಾಗಿದ್ದವು. ಜನ್ಮಕ್ಕಿಂತ ಕರ್ಮ, ಆಚರಣೆಯಿಗಿಂತ ಅರಿವು ಅವರ ಆಧ್ಯಾತ್ಮದ ಅಡ್ಡಹಾದಿ. ನಿಜವಾದ ಭಕ್ತಿ ಎಂದರೆ ದೇವರನ್ನು ಹುಡುಕುವುದು ಅಲ್ಲ — ಆತ್ಮದೊಳಗಿನ ಬೆಳಕನ್ನು ಅರಿಯುವುದು.

ಭಾರತದ ಭಕ್ತಿ ಚಳವಳಿಯ ಬೇರೆ ಕವಿಗಳಂತೆ, ಅವರ ದಾರಿಯೂ ವ್ಯಾಪಕವಾಗಿತ್ತು. ಸೂಫಿ ಸಂತರ ಭಾವದಂತೆಯೇ ಅವರ ದೃಷ್ಟಿಯೂ ಮಾನವೀಯವಾಗಿತ್ತು. ವೈಷ್ಣವ ದ್ವೈತ ತತ್ವದ ಆಧಾರದ ಮೇಲೆ ನಿಂತರೂ, ಅವರ ದೇವರು ಮತಗಳನ್ನೂ ವರ್ಗಗಳನ್ನೂ ಮೀರಿ ಎಲ್ಲರಿಗೂ ಲಭ್ಯ.


ನಮ್ಮ ಕಾಲದಲ್ಲಿ ಅವರ ಪ್ರಸ್ತುತತೆ

ಐದು ಶತಮಾನಗಳ ನಂತರವೂ ಕನಕದಾಸರ ಧ್ವನಿ ನಮ್ಮೊಳಗೇ ಪ್ರತಿಧ್ವನಿಸುತ್ತಿದೆ. ಗುರುತಿನ ರಾಜಕೀಯ, ಸಾಮಾಜಿಕ ಅಸಮಾನತೆ, ಧರ್ಮದ ವಿಭಜನೆಗಳ ನಡುವೆ ಅವರ ಸಮಾನತೆಯ ದೃಷ್ಟಿ ಇಂದಿಗೂ ತಾಜಾ.

ಅವರ ಕವಿತೆಗಳು ಹೇಳುತ್ತವೆ — ನೈತಿಕತೆ ಎಂದರೆ ಪರಂಪರೆಯಿಂದ ಬಂದ ವರವಲ್ಲ; ಅದು ಸತ್ಯನಿಷ್ಠೆಯ ಆಯ್ಕೆ. ಕನಕನ ಕಿಂಡಿ ಇಂದು ಕೇವಲ ಕಿಟಕಿಯಲ್ಲ; ಅದು ಭಾರತದ ಆತ್ಮದ ಉಪಮೆ. ಅದು ನಮ್ಮ ದೃಷ್ಟಿಯನ್ನು ಹೊರಗಡೆ ತಿರುಗಿಸಿ, ಇನ್ನೂ ಬಾಗಿಲಿನ ಹೊರಗಡೆ ನಿಂತವರೊಳಗಿನ ದೇವರನ್ನು ಕಾಣುವಂತೆ ಮಾಡುತ್ತದೆ.

ಧಾರ್ಮಿಕ ಆಚರಣೆಗಳು ಇಂದಿನ ಕಾಲದಲ್ಲಿ ಅರ್ಥ ಕಳೆದುಕೊಳ್ಳುತ್ತಿದ್ದಾಗ, ಕನಕದಾಸರು ಕೊಡುವ ಪಾಠ ಸ್ಪಷ್ಟ: ನಿಜವಾದ ಧರ್ಮ ವಿಭಜನೆಗೆ ಕಾರಣವಾಗುವುದಿಲ್ಲ; ಅದು ಸೇರುವ ದಾರಿಯನ್ನು ತೋರಿಸುತ್ತದೆ.
ಅವರು ಬರೆದರು — “ಎಲ್ಲರಲ್ಲಿಯೂ ದೇವರನ್ನು ನೋಡು; ವ್ಯತ್ಯಾಸವೇ ಕಾಣದಂತಾಗುತ್ತದೆ.”


ಅವರ ಶಾಶ್ವತ ಬೆಳಕು

ಕನಕದಾಸರು ಶಾಶ್ವತರು, ಏಕೆಂದರೆ ಅವರು ಮುಕ್ತಿಯ ಭಾಷೆ ಮಾತನಾಡಿದರು — ಅದು ರಾಜಕೀಯದ ಅಥವಾ ಆರ್ಥಿಕದ ಮುಕ್ತಿ ಅಲ್ಲ; ಆತ್ಮದ, ನೈತಿಕತೆಯ, ಮನುಷ್ಯತ್ವದ ಮುಕ್ತಿ. ಅವರ ಕವಿತೆ ನಮಗೆ ಮನಸ್ಸಿನೊಳಗೆ ನುಗ್ಗಲು ಹೇಳುತ್ತದೆ — ನ್ಯಾಯವಾಗಿ ನಡೆಯಲು, ಎಲ್ಲರನ್ನೂ ಗೌರವಿಸಲು, ಪ್ರತಿಯೊಬ್ಬರಲ್ಲಿಯೂ ದೇವರ ಕಣಜವನ್ನು ಕಾಣಲು.

ಅವರ ಜೀವನವು ಕೇಳುತ್ತದೆ: ಹುದ್ದೆಗೆ ಬದಲು ಸತ್ಯವನ್ನು ಆರಿಸು, ಅಹಂಕಾರಕ್ಕಿಂತ ವಿನಯವನ್ನು ಆರಿಸು, ಬೇರ್ಪಡಿಸುವುದಕ್ಕಿಂತ ಸೇರಿಸುವುದನ್ನು ಆರಿಸು.

ಕನಕದಾಸರನ್ನು ನೆನಪಿಸಿಕೊಳ್ಳುವುದು ಎಂದರೆ ಭೂತಕಾಲದ ಸಂತರನ್ನು ಪೂಜಿಸುವುದಲ್ಲ — ನಮ್ಮೊಳಗಿನ ನಿಶ್ಶಬ್ದ ಧ್ವನಿಯನ್ನು ಪುನಃ ಕೇಳುವುದು. ದೇವರು ಯಾವ ಭಾಷೆಯಲ್ಲಿದ್ದರೂ, ಯಾವ ಧರ್ಮದಲ್ಲಿದ್ದರೂ — ತೆರೆದ ಹೃದಯವನ್ನೇ ಹೆಚ್ಚು ಸ್ಪಷ್ಟವಾಗಿ ಆಲಿಸುತ್ತಾನೆ.


(ಲೇಖಕರು – ನವದೆಹಲಿಯ ಇನ್‌ಸ್ಟಿಟ್ಯೂಟ್ ಆಫ್ ಆಬ್ಜೆಕ್ಟಿವ್ ಸ್ಟಡೀಸ್‌ನ ಸಾಮಾನ್ಯ ಸಭಾ ಸದಸ್ಯರು)



سولھویں صدی کے سنت کی لازوال تعلیمات — ایک بٹے ہوئے دور کے لیے




از: جمیل احمد ملنسار، بنگلور

ہر زمانہ ایک ایسی آواز کو جنم دیتا ہے جو مذہب کے نام پر کھڑی کی گئی دیواروں سے سوال کرتی ہے۔ سولھویں صدی کے کرناٹک میں وہ آواز کنک داسا (1509–1606) کی تھی — ایک چرواہے اور سپاہی کی، جس نے تلوار رکھ دی اور روحانیت و شاعری کے سفر پر نکل پڑا، اور ہمیشہ کے لیے ہندوستان کی ضمیرِ حیات میں امر ہو گیا۔

کنک داسا کا اصل نام تھِمّپّا نائک تھا، اور وہ باڈا گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق کُرُبہ برادری سے تھا — ایک ایسا طبقہ جو اُس دور کے مذہبی ایوانوں سے بہت دور سمجھا جاتا تھا۔ مگر یہی چرواہا جب فکری اور اخلاقی بصیرت کے سفر پر نکلا تو اپنے زمانے کے لیے ایک اخلاقی رہنما بن گیا — اور آج بھی ہماری دنیا کے لیے راہ دکھاتا ہے۔

کنک داسا نے سنسکرت نہیں بلکہ عام لوگوں کی زبان، کنڑ میں لکھا۔ ان کی تخلیقات — موہنا ترنگنی، نلا چرترے، رام دھیان چرترے اور سینکڑوں کیرتن — گہرے روحانی مفاہیم کو سادہ اور دل نشین زبان میں پیش کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک بھکتی یعنی عقیدت، رسومات سے برتر تھی؛ مساوات، درجہ بندی سے افضل؛ اور اخلاقی جرأت، اندھی تقلید سے زیادہ قیمتی۔ ان کے نزدیک خدا مندر کی دیواروں میں مقید نہیں، بلکہ عاجزی، محبت اور دیانت دار عمل میں جلوہ گر ہے۔
بغاوت سے بندگی تک کا سفر

کنک داسا کی زندگی فرار کی نہیں بلکہ مقابلے کی زندگی تھی۔ روایت ہے کہ جب اُڈوپی کے کرشن مندر کے برہمن پجاریوں نے انہیں داخلے سے روکا، تو کرشن مورتی نے رخ موڑ کر ایک چھوٹی کھڑکی سے اُنہیں دیدار بخشا — یہی کھڑکی آج کنکنا کنڈی کے نام سے مشہور ہے۔
چاہے یہ واقعہ حقیقت ہو یا علامت، مگر یہ کنک داسا کے پیغام کا نچوڑ بیان کرتا ہے: خدا امتیاز نہیں کرتا۔

ان کے اشعار میں طنز، لطافت اور گہری بصیرت یکجا تھی۔ ایک گیت میں وہ پوچھتے ہیں:


“کیا فائدہ تمہارے جنئو کا، اگر تمہارا دل غرور میں الجھا ہوا ہے؟”

کنک داسا کی شاعری مذہب کا انکار نہیں تھی بلکہ اس کی اصل روح کی بازیافت تھی — یہ احساس کہ عبادت، مساوات کے بغیر ادھوری ہے۔
پیغام جو وقت سے ماورا ہے

ایک ایسے دور میں جب ذات پات نے عبادت اور علم دونوں پر قفل لگا رکھے تھے، کنک داسا کی آواز انقلابی معلوم ہوتی تھی۔ وہ سکھاتے تھے کہ کرم اور بھکتی، نسب سے برتر ہیں، اور اصل پوجا وہ ہے جو دل میں جاگتی ہے، نہ کہ رسومات کے شور میں۔

ان کے پیغام میں بھکتی اور صوفی روایتوں کی ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے — وہی آفاقی محبت، وہی انسان دوستی۔ اگرچہ وہ ویشنو دھرم کے دوئی کے فلسفے سے وابستہ تھے، مگر ان کا خدا محدود نہیں تھا؛ وہ ہر مخلص دل میں جلوہ گر تھا۔
آج کے دور میں ان کی معنویت

پانچ صدیوں بعد بھی کنک داسا کی آواز ہمارے زمانے کے شور میں سنائی دیتی ہے۔ آج جب ذات، مذہب اور سیاست کے نام پر معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے، ان کا اصرار انسان کی عزت اور مساوات پر پہلے سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔

اُڈوپی کی کنکنا کنڈی اب صرف مندر کی ایک کھڑکی نہیں بلکہ ایک استعارہ ہے — اُس ہندوستان کا استعارہ جس کی ہم تمنا کرتے ہیں: کھلا، شفیق، اور سب کو گلے لگانے والا۔

کنک داسا کا پیغام مذہب کے نام پر تفرقہ ڈالنے والوں کے لیے خاموش مگر مضبوط جواب ہے۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ روحانیت کا اصل جوہر وہی ہے جو سرحدیں مٹا دے۔ جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:


“ہر شے میں خدا کو دیکھو، اور پھر تمہیں کوئی فرق نظر نہ آئے گا۔”

کنک داسا آج بھی زندہ ہیں، اس لیے نہیں کہ انہوں نے معجزے سنائے، بلکہ اس لیے کہ انہوں نے سچائی، انکساری اور مساوات کا نغمہ گایا۔
ان کی یاد ہمیں ماضی کے کسی بزرگ کی نہیں بلکہ ایک زندہ ضمیر کی یاد دلاتی ہے — جو آج بھی ہمیں یہ کہتی ہے:


“خدا اُس دل کی دعا سنتا ہے جو کھلا ہو، اور اُس ذہن کی جو آزاد ہو۔”

مصنف: جمیل احمد ملنسار
رکنِ جنرل اسمبلی — انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی


فولادی ارادے، نازک قسمت — اندرا گاندھی کی کہانی *از : جمیل احمد ملنسار* بنگلور 9845498354  آج کے دن، 31 اکتوبر  کو، اندرا گاندھی کے المناک ق...