Wednesday, 10 December 2025

وطن کی نغمۂ محبت — ’’وندے ماترم‘‘ کا نیا تناظر








وطن کی نغمۂ محبت — ’’وندے ماترم‘‘ کا نیا تناظر
تحریر: جمیل احمد ملنسار


ایک نغمہ، ایک ملت

ہندوستان کی تاریخ میں چند نغمے ایسے ہیں جو صرف بول نہیں بلکہ قوم کی روح کی دھڑکن ہیں۔ ’’وندے ماترم‘‘ انہی میں سے ایک ہے۔ بنکم چندر چٹرجی نے جب اسے تخلیق کیا تو یہ صرف شاعری نہیں تھی بلکہ ایک غلام قوم کے دل سے اٹھنے والی آزادی کی صدا تھی۔ اس نے شمال سے جنوب تک ایک وجدانی وابستگی پیدا کی، ہندوستان کے باسیوں کو اپنی سرزمین سے ایک نئے شعور کے ساتھ محبت کرنا سکھایا۔​

تاہم اس نغمے کی معنوی تقدیر ہر دور میں یکساں نہ رہی۔ اس کے ابتدائی اشعار میں جہاں وطن کی محبت اور وفاداری کا پرخلوص اظہار تھا، بعد کے حصوں میں مخصوص علامتی تشبیہیں آئیں جنہیں بعض اہلِ ایمان نے اپنے عقائد سے متصادم پایا۔ یہی وہ موڑ تھا جہاں ’’محبتِ وطن‘‘ اور ’’عقیدے کی پاکیزگی‘‘ کے درمیان ایک باریک اور نازک خطِ امتیاز سامنے آیا۔
اعتراضات کی تاریخی جہت

یہ نزاع دراصل مذہب نہیں بلکہ تعبیر کا مسئلہ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی اور دیگر قومی رہنماؤں نے وطن سے محبت کو کبھی ایمان کے خلاف نہیں کہا، البتہ انہوں نے یہ ضرور واضح کیا کہ عقیدہ اور عبادت کا دائرہ الگ ہے۔ اسی احساس کے تحت 1937ء میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے یہ طے کیا کہ سرکاری تقریبات میں صرف پہلے دو بند استعمال ہوں، جو حبِ وطن کے جذبے سے لبریز ہیں مگر کسی مذہبی رنگ سے دور۔

پنڈت جواہر لال نہرو اور سبھاش چندر بوس نے بھی اسی قرار کو تسلیم کیا۔ اس فیصلے نے دراصل ہندوستانی قوم پرستی کو ایک نیا مفہوم دیا — وہ مفہوم جو عدل، مساوات اور ہر شہری کے احترام پر مبنی تھا۔
آج کی بحث اور پریانکا گاندھی کا خطاب

وقت نے کروٹ لی مگر ’’وندے ماترم‘‘ کی بحث اپنی فکری نزاکت کے ساتھ باقی رہی۔ حال ہی میں محترمہ پریانکا گاندھی واڈرا نے پارلیمنٹ میں جو موقف پیش کیا، وہ دراصل اسی روادار اور ہم آہنگ روایت کی تجدید تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’وندے ماترم‘‘ ہر ہندوستانی کے دل کی آواز ہے، مگر اسے سیاسی ہتھیار بنانا اس کے تقدس کو مجروح کرتا ہے۔​

یہ پیغام دراصل ایک عمیق حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ قوموں کی وحدت نعروں سے نہیں، نیت اور عمل سے بنتی ہے۔ محبتِ وطن اگر تقسیم پیدا کرے تو وہ عبادت نہیں، سیاست بن جاتی ہے۔ محترمہ پریانکا گاندھی نے اسی جذبے کے ساتھ یہ صدا بلند کی کہ وطن کی تعظیم کو اختلاف کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، بلکہ اسے قومی اتحاد کی بنیاد مانا جائے۔
جنوب کی راہوں پہ روشن چراغ — منظور رضوی کا مکتوب

لیکن کہانی کا ایک خاموش باب ابھی باقی تھا۔ ڈاکٹر راہی فدائی کی کتاب ’’اوراقِ جاویداں‘‘ (1994) میں ایک قیمتی خط محفوظ ہے، جو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے لیٹرہیڈ پر منظور رضوی نے حکیم نورالحق جاوید کے نام لکھا۔ یہ اس زمانے کی دستاویز ہے جب آزادی کی تحریک اپنے عروج پر تھی، اور مسلمانوں کے لیے قومی سیاست میں شمولیت کا سوال اہم تھا۔​

منظور رضوی اپنے مکتوب میں مخاطب کو یاد دلاتے ہیں کہ کانگریس کا پیغام مذہب نہیں بلکہ انسان اور وطن کی آزادی کا پیغام ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قوم کی خدمت اور انصاف کا قیام ایمان کے عین مطابق ہے، بشرطیکہ مقصد عدل اور مساوات ہو۔ ان کے الفاظ میں وہی رچاؤ اور فکری وقار نمایاں ہے جو مولانا آزاد کے ’’تذکرہ‘‘ اور ’’غبارِ خاطر‘‘ میں دکھائی دیتا ہے — یعنی ایمان اور انسانیت کی ہم آہنگی۔

قدیم سے جدید تک تسلسل

منظور رضوی نے جو پیغام ایک چھوٹے قصبے سے دیا تھا، آج وہی صدا پریانکا گاندھی کے زبان سے ایک نئے دور میں گونجتی ہے۔ دونوں نے ایک ہی سچائی کی طرف توجہ دلائی — کہ قومی علامتوں کو تفریق نہیں بلکہ تالیفِ دلوں کا وسیلہ بننا چاہیے۔ جس طرح رضوی نے جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں کو اعتماد دیا کہ قومی نعروں میں کسی مذہبی تعصب کی جھلک نہیں، اسی طرح آج پریانکا یہ باور کرا رہی ہیں کہ ’’وندے ماترم‘‘ سب کا ہے۔

یہ خط یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہندوستانی قوم پرستی کی بنیادیں صرف دہلی یا کلکتہ میں نہیں بلکہ میسور، مدراس اور دکن کے قصبوں میں بھی استوار ہوئیں۔ انہی علاقوں کے باکردار، سنجیدہ اور تعلیم یافتہ مسلمانوں نے آزادی کی تحریک میں ایسی فکری گہرائی پیدا کی جس نے ملک کی اساس کو مضبوط کیا۔
جنوب کی روشنی میں سیکولر ہندوستان

اگر آج ’’وندے ماترم‘‘ دوبارہ اتحاد اور ہم آہنگی کی علامت بنتا ہے، تو یہ انہی گمنام کرداروں کی قربانیوں کا ثمر ہے جنہوں نے مذہب اور وطن کی محبت کو ایک دوسرے کا معاون بنایا، متصادم نہیں۔ منظور رضوی اور حکیم نورالحق جاوید جیسے لوگوں نے بتایا کہ جہاں انسانیت ہوتی ہے، وہاں ایمان کی خوشبو بھی باقی رہتی ہے۔


آج جب ملک اپنی سماجی تشکیل کے نئے مرحلے میں ہے، تو ایسے خطوط اور مکالمے ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہندوستان کی اصل روح — اس کی ’’آتما‘‘ — کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت ہے۔ دکن کی فضاؤں سے اب بھی ایک مدھم مگر پُرخلوص آواز اٹھتی ہے:
محبتِ وطن ایمان کی تکمیل ہے، اور ایمان کا حسن انسانیت سے ہے۔

سورۃ کہف

علم اور معرفت کی دنیا میں انسان جتنا آگے بڑھتا ہے، اتنا ہی اُسے اپنی سمت کو درست رکھنے کے لیے رہنمائی کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ کہف قرآنِ مجید کی اٹھارویں سورت کے طور پر مؤمن کو ان عظیم اصولوں سے روشناس کرواتی ہے جو شعور اور ایمان کی پختگی کا سبب بنتے ہیں۔ اس سورت کا نزول مکہ مکرمہ میں ایسے وقت ہوا جب مسلمانانِ مکہ شدید معاشرتی اور دینی آزمائشوں سے دوچار تھے۔ چنانچہ، سورت کہف ہمیں مشکلات میں استقامت، اللہ کی وحدانیت پر ایمان، اور روحانی بلندی کی تعلیم دیتی ہے۔ اس کے نقصاناتی اور لازوال واقعات—اصحاب کہف، دو باغ والوں کی مثل، حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السلام کا سفر، اور حضرت ذوالقرنین کی عدل و بصیرت—ہر دور کے انسان کے لیے درس اور تسلی کا سرچشمہ ہیں۔​

یہاں سے گفتگو کو اس سورت کی ابتدا پر لاتے ہیں، تاکہ اس کی روشنی میں آگے بڑھتے ہوئے نکات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

آغازِ سورہ اور اس کا پیغام

چونکہ کسی بھی نصیحت کے اولین نقطہ آغاز پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی ضروری ہے، اس لیے سورت کہف کے آغاز کو محورِ گفتگو بناتے ہیں۔ سورت کا آغاز پروردگارِ عالم کی تعریف و حمد سے ہوتا ہے: اَلْـحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِه الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجَا ۔ اس میں پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر وہ کتابِ عظیم نازل فرمائی ہے جس میں کوئی خلل یا کجی نہیں۔ یہاں سے سبق ملتا ہے کہ قرآن مجید سراسر ہدایت ہے، اور اس میں موجود ہر بات قاری کے ایمان و عمل کے لیے روشنی ہے۔ اسی تسلسل میں، ایمان والوں کو بشارت اور منکرین حق کو انتباہ ملتا ہے کہ کامیابی اور ناکامی دونوں کا فیصلہ اللہ کے فیصلوں پر منحصر ہے۔​

اب اس مرکزی پیغام سے نکل کر اس سورت کے مشہور ترین واقعہ، یعنی اصحابِ کہف کی طرف آتے ہیں، تاکہ نزول و تاریخ کے پس منظر کو بھی بخوبی سمجھا جا سکے۔

اصحابِ کہف کا تاریخی پس منظر

ایک طرف قرآن سب کو ایمان و توکل کی راہ دکھاتا ہے تو دوسری طرف اصحابِ کہف کی مثال پیش کرتا ہے جو ایمان کی پختگی کی لازوال تصویر ہے۔ ان غیور نوجوانوں کا واقعہ اس دور کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بھی پیغام تھا کہ وہ اپنی جان و ایمان کی حفاظت کے لیے ظالموں کے سامنے جھکنے کے بجائے اللہ کی پناہ میں آجائیں۔ مزید براں، قصہ اصحاب کہف واضح کرتا ہے کہ ان کی قربانی، اللہ کی طرف رجوع، اور صبر و استقامت بلاشبہ رب کی رحمت کا سبب بنی۔ تین سو نو سال تک غار میں سوئے رہنا اسی توکل اور رب پر بھروسے کا ثمر ہے۔ اس واقعے سے معاشرتی بگاڑ کے دور میں ایمان پر ثابت قدم رہنا اہل ایمان کے موٴثر کردار کو اجاگر کرتا ہے۔​

اب دنیاوی مال و جاہ کی حقیقت بیان کرنے والے قصے کی طرف پیش رفت کرتے ہیں، جس میں تعمیر کردار اور زہد کا سبق چھپا ہے۔

دنیاوی مال و دولت: آزمائش اور حقیقت

سورہ کہف کی اگلی داستان میں، ہم باغ والے دو افراد کی مثال میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں سے سورہ مال و دولت اور دنیاوی رنگینیوں کے بارے میں ایک گہرا پیغام دیتی ہے۔ ایک شخص اپنی زرخیز زمین اور کثرت مال پر نازاں نظر آتا ہے، جب کہ دوسرا اللہ پر توکل اور عاجزی کی علامت بنتا ہے۔ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ کے سامنے تکبر اور غرور کا کوئی مول نہیں، جب کہ شکرگزاری اور عاجزی ہر حال میں انسان کو عروج بخشتی ہے۔ یوں یہ واقعہ ہر قاری کو اپنی ممکنہ آزمائشوں میں عاجزی، صبر اور قناعت کا راستہ اختیار کرنے کے لیے جھنجھوڑتا ہے۔​

مال و زَر کے قصے سے نکل کر اب علم و حکمت کی بات کرتے ہیں، جہاں حضرت موسیٰ اور حضرت خضرؑ کی مثال کے ذریعے انسانی عقل اور الہامی علم کا فرق سامنے آتا ہے۔

علم، حکمت اور ربانی اسرار

پہشلے واقعے میں جہاں دنیاوی مال کو عارضی قرار دیا گیا، وہیں اب حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کی ملاقات میں انسان کی عقل اور رب کی حکمت کا گہرا فرق اجاگر ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی علم سے محبت، اللہ کی ہدایت سے خضرؑ کا الہامی علم، اور اُن کے سفر کا ہر موڑ یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ انسانی فہم محدود ہے۔ یہاں ہر قاری کو تعلیم دی جاتی ہے کہ عاجزی اور حسنِ ظن کے ساتھ ہر فیصلہ رب کی حکمت پر چھوڑ دینا بلند ظرفی کی نشانی ہے۔​

اب عدل اور اقتدار کے حقیقی مفہوم کی طرف بڑھتے ہیں، جہاں ذوالقرنین کی زندگی ایک دین دار حکمران کے اوصاف بیان کرتی ہے۔

اقتدار کا عدل، ذمہ داری اور انجام

گزشتہ قصوں کے بعد اب سورہ کہف کی وہ مثال آتی ہے جس میں ذوالقرنین کی سلطنت، انتظامی بصیرت اور عدل و رحم کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ وہ شخص جسے اللہ نے دنیا میں نمایاں اقتدار دیا، ہر مقام پر مظلوموں کا ساتھ دیتا ہے اور انصاف کے اصولوں کو سب پر ترجیح دیتا ہے۔ یوں سبق یہ ملتا ہے کہ طاقت اور اختیار امانت ہیں جنہیں صرف اور صرف خدمتِ خلق اور تقویٰ کے ساتھ استعمال کرنا ہی دراصل بندہ مومن کی شان ہے۔​

ماضی کے واقعات کی روشنی میں اب اس سورت میں بیان کردہ فتنوں اور اُن سے حفاظت کی طرف مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔

فتنوں سے حفاظت: سورۃ کہف کی فضیلت

پچھلے واقعات سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ دنیاوی فتنہ اور آزمائش ہر دور میں انسان کو گھیرتے ہیں۔ اسی لیے سورۃ کہف میں فتنوں سے حفاظت اور دجال کے فتنے سے بچنے کے لیے دعائیں اور تعلیمات دی گئی ہیں۔ جمعہ کے دن اس کی تلاوت سے ہفتے بھر کے لیے قلبی روشنی اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ معتبر احادیث میں اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ یوں یہ سورت اسلامی معاشرت کی روح اور ایمان کے ستونوں کو مضبوط کرتی ہے۔​

آخر میں، تمام واقعات و تعلیمات کو سمیٹتے ہوئے عملی نقطہ نظر اور اخلاقی تربیت پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا۔

اختتامیہ اور عملی سبق

سورۃ کہف کے تمام مضامین ایک شفاف ربط کے ساتھ ہر قاری کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کے لیے قرآن کا دامن تھامنا ضروری ہے۔ کامیابی انہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو آزمائش و مشکلات میں اللہ کی یاد، صدقِ نیت، عاجزی اور اعمالِ صالحہ کی روش اپناتے ہیں۔ سورت کہف کی تعلیمات کو اصولِ زندگی بنانے سے دنیا و آخرت کی کامیابی ممکن ہے، اور یہ سبق ہر قاری کے لیے ایک عملی منشور کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔

تعلقِ حدیث: جمعہ کے دن سورۃ کہف کی تلاوت

تواتر کے ساتھ متعدد احادیث میں آیا ہے کہ پیارے رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن سورۃ کہف کی تلاوت پر خصوصی اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے: "مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ " (جس نے جمعہ کے دن سورۃ کہف کی تلاوت کی، اس کے لیے دو جمعوں کے درمیان روشنی ہوں گی)۔ دوسری حدیث میں فرمایا: "مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ " (جس نے سورۃ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کی، وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا)۔​

فضائل و برکات

جمعہ کے دن سورۃ کہف کی تلاوت قلب و روح میں نور، ہدایت، اور سکون پیدا کرتی ہے۔ یہ نورانہ تلاوت صرف وقتی فائدہ ہی نہیں دیتی بلکہ پورے ہفتے کے لیے راہِ ہدایت اور نفسیاتی اطمنان کا سامان بنتی ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس تلاوت کے خصوصی فوائد درج ذیل ہیں:

مومن کی روح اور دل میں اللہ کی طرف سے خاص روشنی اور صاف دلی عطا ہوتی ہے، جس سے وہ ہفتے بھر فتنوں اور گمراہی سے محفوظ رہتا ہے۔​

فتنے دجال سے پناہ کی خاص دعا اور حفاظتی حصار اسی سورۃ کے ذریعے نصیب ہوتا ہے۔ خاص طور پر ابتدائی یا آخری دس آیات کے حفظ اور تلاوت سے ایمان مضبوط رہتا ہے۔​

اللہ کی طرف سے برکت، مغفرت اور روحانی راحت ملتی ہے۔ اس سنّت کی پابندی ایمان میں استحکام اور قلبی روشنی کا ذریعہ بنتی ہے۔​

مسلسل تلاوت استقامت، عاجزی، اور دنیاوی آزمائشوں میں کامیابی کی کلید ہے۔ اس سے انسان دنیاوی غرور و مال سے آزاد ہوکر اصل فلاح کی طرف مائل ہوتا ہے۔​

عصر حاضر میں اہمیت و مطابقت

جدید دور کی پیچیدہ اور تیز رفتار زندگی میں، ایمان کے متواتر فتنے، مادہ پرستی اور فکری الجھنیں انسان کو بے سکون کر دیتی ہیں۔ سورۃ کہف کی تلاوت عصرِ حاضر میں چند نمایاں ترجیحات کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے:

اس سورت کی ہر کہانی، مثلا اصحابِ کہف کا ایمان، دو باغ والوں کا عبرتناک انجام، حضرت خضر و موسیٰؑ کا علم و صبر، اور ذوالقرنین کی عدل و حکمت—سب انسان کو ایمان، شکر گزاری، عاجزی اور اخلاقی بصیرت دیتی ہیں۔​

جدید دنیا میں جہاں سوشل میڈیا اور معلوماتی طوفان ہر سو فتنوں کو جنم دے رہا ہے، وہاں سورۃ کہف انسان کو فکری استقامت، رب پر بھروسے، اور باطل سے بچاؤ کی اجتماعی تربیت عطا کرتی ہے۔ خاص طور پر نوجوان اپنی زندگی میں اس سورت کے آفاقی اسباق اپنا کر ہر آزمائش میں مضبوطی سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔​

ماحولیاتی، معاشرتی، اور سیاسی تغیرات کے اس دور میں، سورۃ کہف کی کہانیاں ہر فرد اور خاندان کو یہ سکھاتی ہیں کہ اصل کامیابی عاجزی، اعمالِ صالحہ اور اللہ پر کامل بھروسے میں ہے، نہ کہ وقتی دنیاوی چمک دمک میں۔​

اس کے برکت والے الفاظ انسان کو خود احتسابی، پاک دامنی، اور زندگی کی حقیقی ترجیحات سے جڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یوں یہ سورت آج کے مسلمان کے لیے ایک نیا منشور اور رہنمائی کا ذریعہ ہے، جو اس کے ایمان اور اخلاص کو روزمرہ زندگی میں تازہ کر دیتی ہے۔​

آخرکار، سورۃ کہف کی تلاوت سنتِ نبوی پر عمل اور ہدایت کا سرچشمہ ہونے کے ناطے ہر دور کے مومن کو علم، روشنی، اور رہنمائی عطا کرتی ہے۔ یہ جام و نور کا وہ پیغام ہے جو جمعہ کے دن سے اگلے جمعہ تک قلوب کو تازہ اور ضمیروں کو بیدار رکھتا ہے.

بھارت نے جنوبی افریقہ کو 101 رنز سے روند ڈالا — کٹک میں ضبط و توازن کی شاندار مثال


تحریر: جمیل احمد ملنسار
بنگلورو | 9 دسمبر 2025  
پانچ ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے پہلے مقابلے میں بھارت نے جنوبی افریقہ کو 101 رنز کے بھاری فرق سے شکست دے کر ایک ایسی جیت رقم کی جو حکمت، ضبط اور نئی توانائی کا حسین امتزاج تھی۔ سرخ مٹی کی اس پچ پر، جو بسا اوقات اچھال دیتی اور کبھی گیند کو تھام لیتی، میزبان ٹیم نے پہلے 175 رنز بنا کر 6 وکٹیں گنوائیں اور پھر مہمانوں کو محض 74 رنز پر سمیٹ دیا — جو جنوبی افریقہ کی ٹی ٹوئنٹی تاریخ کا کم ترین اسکور ثابت ہوا۔  

بھارتی کارکردگی کی اصل خوبی محض جوش و جذبہ نہیں بلکہ اس منصوبہ بند ٹھہراؤ میں تھی جس نے بیٹ اور بال دونوں محاذوں پر حریف کو گھیرے میں لے لیا۔  

ہارڈک پانڈیا، جن کی فٹنس اور فارم پچھلے کچھ عرصے سے زیر بحث تھی، اس میچ میں ایک بار پھر اپنی مکمل صلاحیت کے ساتھ ابھرے۔ انہوں نے 28 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 59 رنز جوڑے — ایسی اننگز جس میں سنجیدگی، مستعدگی اور جارحانہ وقار کا خوبصورت امتزاج تھا۔ 25 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کرتے ہوئے پانڈیا نے وہی پرانا اعتماد لوٹایا جو ان کے کھیل کی پہچان رہا ہے، بالکل ویسا ہی جیسا 2024 کے عالمی کپ میں دیکھا گیا تھا۔  

ٹیلک ورما (23*)، اکشر پٹیل (15) اور جیتیش شرما (10) نے چھوٹی مگر قیمتی اننگز کھیل کر اس مجموعے کو استحکام بخشا، جس سے ٹیم غیر ضروری خطرات سے بچی رہی۔ جنوبی افریقہ کی بولنگ، جس کی قیادت لنگی انگیدی (3/31) کر رہے تھے، گیند کے نرم پڑنے کے بعد بے اثر دکھائی دی۔  

پھر بھارتی گیند بازوں نے ایسی برق رفتاری اور درستگی دکھائی جس نے میچ کو یک طرفہ بنا دیا۔ جسپریت بمراہ اور ارشدیپ سنگھ نے ابتدائی جھٹکے دیے، جبکہ ورن چکرورتی اور اکشر پٹیل نے درمیانی اوورز میں حریف پر گرفت مضبوط کی۔ چاروں گیند بازوں نے دو دو وکٹیں حاصل کیں، اور پانڈیا نے ایک، یوں جنوبی افریقہ کی پوری ٹیم صرف 12.3 اوورز میں ڈھیر ہوگئی۔  

ڈیوالڈ بریوس (22) اور ایڈن مرکرم (13) کے سوا کسی کھلاڑی نے ٹھہر کر مقابلہ نہ کیا، اور بھارتی گیند بازوں نے اسپن اور سیم کی چالاکیوں سے مہمان بیٹرز کی کمزوریاں بے نقاب کر ڈالیں۔ 74 رنز آل آؤٹ جنوبی افریقہ کی دو سو سے زائد ٹی ٹوئنٹی میچز کی تاریخ کا بدترین زوال تھا۔  

یہ کامیابی بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان ریکارڈ کو 19–11 تک لے گئی، اور تقریباً دس برس بعد بھارت نے سو سے زائد رنز کے فرق سے کوئی میچ جیتا۔  
تاہم اس جیت کی اصل معنویت اعداد میں نہیں بلکہ اس نوخیز تبدیلی میں ہے جو سوریہ کمار یادو کی قیادت میں دکھائی دی — ایسا رویہ جس میں بے ساختہ کرتب کے بجائے حساب شدہ تدبیر نمایاں ہے۔  

ایسے دور میں جب بھارتی کرکٹ تجربے اور جوان خون کے درمیان توازن تلاش کر رہی ہے، کٹک کا یہ میچ اس نئے اتفاقِ رائے کی علامت بن گیا — جہاں انفرادی چمک اجتماعی کامیابی کے تابع ہے۔ دوسری جانب جنوبی افریقہ کے لیے اب ڈربن کا معرکہ نئی حکمتِ عملی کے ساتھ اترنے کی فکرمند دہائی ہے۔  

***

Tuesday, 9 December 2025

نو سال کا موسمِ قید- عبدالوحید شیخ اور 7/11 بم دھماکوں کے مقدمے کا نہ ختم ہونے والا سایہ





نو سال کا موسمِ قید- عبدالوحید شیخ اور 7/11 بم دھماکوں کے مقدمے کا نہ ختم ہونے والا سایہ
تحریر: جمیل احمد ملنسار


ممبئی کی ریل گاڑیاں اس رات چیخ پڑی تھیں۔ جولائی 2006 کی وہ المناک شام شہر کی سانسوں میں بارود گھول گئی۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ جانیں اجڑ گئیں، سیکڑوں خواب ملبے میں دفن ہو گئے، اور خوف نے انصاف کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ چند ہی ہفتوں میں اعلان ہوا کہ ملزمان پکڑ لیے گئے ہیں—تیرہ مسلمان نوجوان، جنہیں ایک لمحے میں "دہشت گرد" کہہ دیا گیا۔ ان میں ایک غیر نمایاں مگر روشن نام تھا: عبدالوحید شیخ، گوونڈی کا استاد، جو بچوں کو الفاظ پڑھانا جانتا تھا لیکن اپنے دفاع کا ایک حرف بھی نہیں لکھ سکا۔

نو برس وہ جیل کی دیواروں میں زندگی کے برابر بٹتا رہا۔ 2015 میں عدالت نے خاموشی سے بتایا کہ ثبوت نہیں ملے، لہٰذا بری کیا جاتا ہے۔ مگر بریت انصاف نہیں تھی، صرف سزا کے اختتام کا اعلان تھا۔ رہائی کے دس برس بعد، جب بمبئی ہائی کورٹ نے باقی تمام ملزموں کو بھی بے گناہ قرار دیا، تب عبد الوحید نے نو کروڑ روپے کے ہرجانے کا دعویٰ کیا—ایک کروڑ ہر قید کے سال کا۔ مگر یہ دعویٰ رقم کا نہیں ضمیر کا تھا، اس اقرار کا کہ ریاست نے غلطی کی، اور اس کی قیمت ایک انسان کی زندگی بنی۔

قانونی ریکارڈ میں وہ اذیت درج نہیں جو اس کے جسم پر نقش ہو چکی تھی۔ حراست کے دوران دی جانے والی مار، آنکھوں میں گلوکوما، ہڈیوں کی کمزوری اور روح کی تھکن۔ باپ اسی دوران بچھڑ گیا، ماں کے حواس بکھر گئے، اور بچے اسکول کے دروازوں پر تماشہ بن گئے—وہ ہر نیا دن "دہشت گرد کے بچے" کہلا کر شروع کرتے تھے۔ تیس لاکھ کے قرض اور بے شمار طنزوں کے نیچے ایک استاد کی کھلتی ہوئی عمر دب گئی۔ اٹھائیس سے سینتیس برس کے درمیان، وہ برس جو خواب اور گھر بنانے کے ہوتے ہیں، ایک جھوٹے بیانیے کی نذر ہو گئے۔

عبد الوحید انصاف کے دروازے کھٹکھٹاتا رہا۔ قومی انسانی حقوق کمیشن، ریاستی کمیشن، اقلیتی کمیشن—سب کے سب وہی رسمی زبان بولتے، “ہم سن سکتے ہیں، مگر کچھ کر نہیں سکتے۔” یہ ادارے قانون کے مطابق طاقتور ضرور ہیں، مگر ان کے فیصلے سفارشات بن کر فائلوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ انصاف کے چراغ کبھی کبھار ہی جلتے دکھائی دیتے ہیں، جیسے نَمبی نارائنن کا مقدمہ، مگر باقی سب زندگیاں نظام کے اندھیرے میں گم ہو جاتی ہیں۔

عبد الوحید کا معاملہ صرف ایک فرد کا نہیں، پورے انصاف کے ڈھانچے کا امتحان ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیاں ثبوت نہیں، تعصب تلاش کرتی ہیں۔ مقدمے برسوں گھسٹتے رہتے ہیں یہاں تک کہ بریت بھی سزا بن جاتی ہے۔ افسران جو جھوٹ تراشتے ہیں، آج بھی باعزت نوکریوں پر فائز ہیں۔ معاوضے کا قانون نہیں، صرف ہمدردی کے الفاظ ہیں۔ میڈیا گرفتاری کو شہ سرخی بناتا ہے مگر بریت کو صفحۂ آخر پر دفن کر دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے بے گناہ ہونا خود ایک جرم بن گیا ہو۔

رہائی کے بعد عبد الوحید نے وہ قلم دوبارہ اٹھایا جو کبھی بچوں کے نام لکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس نے “بے گناہ قیدی” کے نام سے کتاب لکھی، جس میں قید کی صلیب، امید کی کرن اور صبر کی کہانی بسی ہوئی ہے۔ اب وہ جیلوں اور انصاف پر تحقیق کر رہا ہے، مگر سماج آج بھی اس کے نام کے ساتھ وہی سایہ جوڑتا ہے—“دہشت گرد”۔ ایک ایسا لفظ جو بریت کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جب کسی نے پوچھا کہ آپ نے دس برس بعد ہی ہرجانہ کیوں مانگا، تو وہ گویا ہوا:
“جب تک میرے تمام ساتھی بے قصور ثابت نہیں ہوتے، میری رہائی ادھوری ہے۔”
2025 کے ہائی کورٹ کے فیصلے نے اس کے صبر کو عدالتی معنی دیے، مگر وقت جو چھن گیا، وہ کون واپس کرے گا؟

یہ مقدمہ ملک کے قانون، سیاست، اور ضمیر تینوں کو جھنجھوڑتا ہے۔ غلط قید کا ازالہ محض وقتی راحت سے نہیں ہو سکتا۔ ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے بااختیار معاوضاتی نظام تشکیل دیا جائے، جھوٹے مقدمات بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو، اور انصاف کی لمبی راہوں پر پھسلتی روحوں کو سنا جائے۔ عبد الوحید کا نو کروڑ کا مطالبہ شاید کبھی پورا نہ ہو، مگر اس کی قدر روپے میں نہیں، احساس میں ہے۔ یہ آواز کہتی ہے کہ اگر آزادی کو بارود سے محفوظ رکھنا ہے، تو انسانیت کو بھی امان میں لینا ہوگا۔

عبد الوحید شیخ کی داستان صرف ایک مقدمے کی روداد نہیں بلکہ وقت کے چہرے پر لکھا وہ سوال ہے جس کا جواب ابھی باقی ہے—کتنے اور عبد الوحیدوں کی زندگی مٹانی ہوگی، تاکہ ریاست یہ سمجھ سکے کہ سلامتی کا مطلب انسان کی قربانی نہیں، اس کی حفاظت ہے۔


When Justice Comes Too Late: Abdul Wahid Shaikh and the Unending Shadow of the 7/11 Blasts Case




This piece analyses the Abdul Wahid Shaikh case through a critical journalistic lens, exploring systemic failures and human costs in wrongful terror prosecutions.


By Jameel Aahmed Milansaar

A Teacher Turned Terror Suspect

In July 2006, a series of coordinated bomb blasts ripped through Mumbai’s suburban trains, killing over 180 people and scarring India’s financial capital forever. Within weeks, the Maharashtra Anti-Terrorism Squad (ATS) claimed to have cracked the case—rounding up 13 Muslim men, all branded as masterminds or facilitators. Among them was Abdul Wahid Shaikh, a modest schoolteacher from Govandi.

For nine years, until his acquittal in 2015, Shaikh languished in prison under the shadow of terrorism. A special MCOCA court found no evidence whatsoever linking him to the attacks. Yet, while freedom came after nearly a decade, rehabilitation and dignity did not. In 2025, ten years after his release—and only after the Bombay High Court fully exonerated all 12 co-accused—Shaikh filed for ₹9 crore compensation, one crore for each year of wrongful incarceration.

His claim is not just for money but for acknowledgment: that the state’s machinery erred, and the price was an innocent life.

The Cost of a Fabricated Case

Shaikh’s petition meticulously documents what the legal record often leaves unsaid. He describes custodial torture that left him with glaucoma and chronic pain, the death of his father during imprisonment, and the psychological breakdown of his mother. His children grew up ostracized as “terrorist’s kids,” enduring educational and social setbacks. The accumulated debt—₹30 lakh—reflects not only loss of income but also the economic toll of stigma.

From age 28 to 37, the vibrant years meant for building a career and raising a family, were consumed by a state-built narrative that ultimately unraveled. His story mirrors the devastating continuum between police overreach, prosecutorial complacency, and judicial delay—where even an acquittal cannot undo the social and emotional ruin.
Legal Pathways, Powerless Outcomes

Shaikh submitted appeals to the National Human Rights Commission (NHRC), the Maharashtra State Human Rights Commission (MSHRC), and the Minority Commissions. The NHRC mechanism, though theoretically robust, has limited teeth. It accepts complaints via post, email, or an online portal, and conducts inquiries with civil court powers. Findings often come with recommendations for monetary relief or prosecution of erring officials, but these remain advisory, not binding.

Resource shortages, procedural delays, and bureaucratic resistance frequently blunt the impact of justice. Governments are supposed to respond within a month to NHRC recommendations, yet in practice, many such directives languish. Even precedents like ISRO scientist Nambi Narayanan’s ₹1.3 crore compensation remain exceptions, not norms.
The Structural Loopholes

The Abdul Wahid Shaikh case lays bare systemic gaps in India’s anti-terror architecture:


Investigative bias and politicisation: Early arrests often cater to optics and communal perceptions rather than evidence.

Judicial delay: Protracted trials mean that even acquittals come too late to matter materially.

Lack of accountability: No punitive mechanism exists for officers or agencies who fabricate or distort evidence.

Inadequate compensation law: India’s jurisprudence lacks standardized restoration frameworks for wrongful incarceration, leaving victims to navigate token relief through commissions.

Media complicity: Sensational trial coverage cements public guilt, but acquittals rarely receive the same attention.

Each of these loopholes ensures that wrongful cases like Shaikh’s are not anomalies but possibilities waiting to recur.
Life After Injustice

After his release, Shaikh has spearheaded advocacy for others falsely accused under terror laws. His book Begunah Qaidi detailed prison life, and he later pursued a PhD on incarceration and justice narratives. Yet, the stigma lingers. Employment prospects remain thin, social acceptance elusive.

When asked why he waited a decade to seek compensation, Shaikh said it was a matter of conscience—he could not claim closure until all co-accused were cleared. The 2025 Bombay High Court verdict finally validated his restraint, officially confirming that the entire case had been built on a fabricated foundation.

“Justice delayed,” he once remarked, “is not just justice denied—it’s a life denied.”
The Broader Reckoning

Cases like these demand legislative clarity. Wrongful incarceration cannot be patched over with symbolic relief. Independent compensation tribunals, strict accountability for fabricated cases, and time-bound reconsideration of “confession-based” investigations are minimum necessities.

Shaikh’s ₹9 crore claim may never be approved in full, but its significance lies elsewhere: in exposing the moral vacuum within the system. As India continues to expand its anti-terror apparatus, the case forces an uncomfortable question—how many more Abdul Wahids must lose their years before the state learns to value liberty as much as security?


Monday, 8 December 2025

ونکی، نوّے کی دھڑکن، پھر سے فاتح






ونکی، نوّے کی دھڑکن، پھر سے فاتح
ونی کتیش پرســاد کی کے۔ایس۔سی۔اے کی صدارت میں فتح صرف ایک انتخابی نتیجہ نہیں، ایک زمانے کی یادوں کی خوشبو ہے — جیسے ہر نوّے کی دہائی کا شیدائی آج دل ہی دل میں جھوم اٹھا ہو۔ وہی پرســاد، جو نئے گیند کے ساتھ لمبی دوڑ لگا کر اسکرین پر چھا جاتے تھے، جن کی ہر گیند کے پیچھے نظم و ضبط اور جذبے کی کہانی ہوا کرتی تھی۔ یہ جیت، ایک ایسے خاموش محنتی سپاہی کو ملنے والا دیرینہ انعام ہے جس نے کرناٹک اور ہندوستانی کرکٹ کے لئے دل و لہو ایک کیا۔

بولنگ کریز سے بورڈ روم تک

جب اعلان ہوا کہ وینکی نے کے۔این۔ شانتی کمار کو شکست دے کر صدرات حاصل کر لی ہے تو یوں لگا جیسے انہوں نے ایک بار پھر آف اسٹمپ ہلا دی ہو۔ سات سو انچاس بمقابلہ پانچ سو اٹھاون — یہ محض اعداد نہیں، ایک جذباتی اظہار ہے کہ کرناٹک کے کرکٹ پرستار طاقت کے لابیوں سے زیادہ ایک کرکٹر کے خلوص پر بھروسہ کرتے ہیں۔

کرکٹرز کا گروپ، مداحوں کی فتح

یہ نتیجہ صرف "گیم چینجرز" پینل کی کامیابی نہیں بلکہ ایک نئے عہد کی علامت ہے۔ سُجیت سُماسُندَر اور سنتوش مینون جیسے اہل رفقا کے ساتھ وینکی کی ٹیم گویا ڈریسنگ روم سے اُٹھ کر ایڈمن باکس میں آ بیٹھی ہے — جہاں اب فیصلہ کرکٹ والے کریں گے، سیاستدان نہیں۔

کرناٹک کا خواب

پرساد نے صاف کہا ہے کہ وہ چنّاسوامی اسٹیڈیم میں ایک بار پھر بین الاقوامی میچ لانے کا خواب رکھتے ہیں۔ بنگلورو کو 2026ء کے ٹی۔20 ورلڈ کپ سے محروم کیا جانا ہر شائق کے دل کو لگا، اور اب اُن کی قیادت میں امیدیں پھر جاگ اُٹھی ہیں کہ وہی میدان ایک دن پھر کرکٹ کے جنون سے گونجے گا۔

مداح کا خراجِ محبت

ایک سچے بھارتی کرکٹ فین کے لیے یہ فتح ذاتی احساس رکھتی ہے — جیسے کسی محبوب، خاموش ہیرو کو آخر وہ عزت مل گئی ہو جس کا وہ برسوں مستحق تھا۔ وینکی سَر، آپ کے لیے نعرہ آج بھی وہی ہے، جو میدانوں میں گونجا کرتا تھا:

"Once a fighter, always our leader!"
یعنی — ایک بار مجاہد، ہمیشہ رہنما۔


ನಮ್ಮ ಬಾಲ್ಯದ ‘ವೆಂಕಿ’ ಮತ್ತೆ ಕ್ರಿಸ್‌ನಲ್ಲಿ




​ಜಮೀಲ್ ಅಹ್ಮದ್ ಮಿಲಸಾರ್

ಒಂಬತ್ತನೆಯ ದಶಕದಲ್ಲಿ ಟಿವಿ ಮುಂದೆ ಕೂತು ಬೆವರು ಹಿಡಿದ ಕೈಗಳಿಂದ ಪಂದ್ಯ ನೋಡುತ್ತಿದ್ದ ದಿನಗಳನ್ನು ನೆನಪಿಸಿಕೊಳ್ಳುತ್ತಿದ್ದರೆ, ಪ್ರಸಾದ್ ಎಂಬ ಹೆಸರು ಕೇವಲ ಇನ್ನೊಬ್ಬ ಬೌಲರ್‌ ಆಗಿರಲಿಲ್ಲ, ಆತ ಆತ್ಮವಿಶ್ವಾಸದ ಮತ್ತೊಂದು ಹೆಸರಾಗಿದ್ದ. ಮೃದುವಾದ ನಗು, ಸರಳ ವ್ಯಕ್ತಿತ್ವ, ಆದರೆ ಕೈಯಲ್ಲಿ ಚೆಂಡು ಬಂದ ಮೇಲೆ ಮೀಟರ್‌ ಬದಲಿಸಿದ ಗಂಭೀರತೆ – ಈ ಮಿಶ್ರಣವೇ ಅವನನ್ನ ‘ಮನಸಿನ ವೇಗಿ’ಯನ್ನಾಗಿ ಮಾಡಿತ್ತು.​

೧೯೯೬ರ ವಿಶ್ವಕಪ್‌ನಲ್ಲಿ ಆ ಐಕಾನಿಕ್‌ ಸ್ಪೆಲ್‌, ಅಮೇರ್‌ ಸೋಹೈಲ್‌ಗೆ ಕೊಟ್ಟ ಆ ತೀಕ್ಷ್ಣ ಪ್ರತಿಕ್ರಿಯೆ – ಇವನ್ನೆಲ್ಲ ನಾವು ಕೇವಲ ಹೈಲೈಟ್‌ ಕ್ಲಿಪ್‌ಗಳಾಗಿ ಅಲ್ಲ, ನಮ್ಮ ಬಾಲ್ಯದ ಗೌರವದ ಕ್ಷಣಗಳಾಗಿ ಸಂಗ್ರಹಿಸಿದ್ದೇವೆ. ಇಂದು ಅದೇ ವ್ಯಕ್ತಿ ಕ್ರೀಸ್‌ ಬದಲಿಸಿಕೊಂಡು, ಆಡಳಿತ ಎಂಬ ಇನ್ನೊಂದು ಪಿಚ್‌ ಮೇಲೆ ನಿಂತಿದ್ದಾನೆ.​

ಬೌಲಿಂಗ್‌ ಮಾರ್ಕ್‌ನಿಂದ ಬ್ಯಾಲೆಟ್‌ ಮಾರ್ಕ್‌ವರೆಗೆ

ಕೆಎಸ್‌ಸಿಎ ಚುನಾವಣಾ ಫಲಿತಾಂಶ ಪ್ರಕಟವಾದ ಕ್ಷಣ, ಸ್ಕೋರ್‌ಕಾರ್ಡ್‌ನಲ್ಲಿ ೭೪೯ ಮತಗಳು ಪ್ರಸಾದ್ ಬಣದ ಕಡೆ ಸೇರಿರುವುದನ್ನ ಕಂಡಾಗ, ಅದು ಒಂದು ಕಠಿಣ ಸ್ಪೆಲ್‌ ಮುಗಿಸಿ ಗಂಗಾಧರನಂತೆ ಗೆಲುವಿನತ್ತ ನಡೆದು ಬರುತ್ತಿರುವ ಬೌಲರ್‌ನ್ನು ನೋಡಿದ ಭಾವನೆ ಕೊಟ್ಟಿತು. ಎದುರಾಳಿಗಳಿಗೆ ಹೋಲಿಸಿದರೆ ಸ್ಪಷ್ಟ ಬಹುಮತ ತಂದುಕೊಟ್ಟ ಈ ಮತಗಳ ಅಂತರ, ಕ್ರೀಡಾಪ್ರಿಯರ ಮನದಲ್ಲಿ “ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ ಆಡಿದವನ ಕೈಗೆ ಸಂಸ್ಥೆ” ಎಂಬ ವಿಶ್ವಾಸ ಎಷ್ಟು ಗಾಢವಾಗಿದೆ ಎನ್ನುವದಕ್ಕೆ ಸಾಕ್ಷಿ.​

ಕಳೆದ ಕೆಲವು ವರ್ಷಗಳಿಂದ ಕೆಎಸ್‌ಸಿಎಗೆ ಕೊರತೆಯಾಗಿದ್ದದ್ದು, ಪವರ್‌ ಅಲ್ಲ, ‘ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ ಮನಸ್ಸು’. ಆ ಕೊರತೆಯನ್ನು ತುಂಬಬಲ್ಲ ನಾಯಕನಲ್ಲಿ, ಅಭಿಮಾನಿಗಳು ತಮ್ಮ ಮತದ ಮೂಲಕ ಬೆಂಬಲ ಸುರಿದಿದ್ದಾರೆ. ಬ್ಯಾಲೆಟ್‌ ಬಾಕ್ಸ್‌ ಮುಂದೆ ಸಾಲಿನಲ್ಲಿ ನಿಂತ ಪ್ರತಿಯೊಬ್ಬ ಅಭಿಮಾನಿಯ ಮನಸ್ಸು ಒಂದೇ ಮಾತು ಹೇಳುತ್ತಿದ್ದಂತೆ: “ಬ್ಯಾಕ್‌ಸೀಟ್‌ ಡ್ರೈವಿಂಗ್‌ ಸಾಕಾಯಿತು, ಈಗ ಸ್ಟೀರಿಂಗ್‌ ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ ಜನರ ಕೈಗೆ ಬರಲಿ.”​
ಗೇಮ್‌ ಚೇಂಜರ್ಸ್‌ – ಹೆಸರಿಗಿಂತ ದೊಡ್ಡ ಸಂದೇಶ

ಈ ಗೆಲುವು ಪ್ರಸಾದ್ ಅವರೊಂದರದ್ದಲ್ಲ, ‘ಗೇಮ್‌ ಚೇಂಜರ್ಸ್‌’ ಬಣದ ಸಂಪೂರ್ಣ ಕ್ರೀಡಾ ಚಿಂತನೆಯ ಜಯವೂ ಹೌದು. ಅನಿಲ್ ಕುಂಬ್ಳೆ, ಜಾವಗಲ್ ಶ್ರೀನಾಥ್‌ ಮುಂತಾದ ದಿಗ್ಗಜರ ನೇರ ಬೆಂಬಲ ಪಡೆದಿದ್ದ ಈ ತಂಡ, “ಮತ್ತೊಮ್ಮೆ ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ ಆಡಿದ ಮನಸ್ಸುಗಳಿಂದ ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ ಆಡಳಿತ ನಡೆಯಲಿ” ಎಂಬ ಘೋಷಣೆಯನ್ನು ಮತದ ಫಲಿತಾಂಶದಲ್ಲಿ ಮಿಂಚಿಸಿದೆ.​

ಉಪಾಧ್ಯಕ್ಷ ಸ್ಥಾನಕ್ಕೆ ಸುಜಿತ್ ಸೋಮಸುಂದರ್‌, ಇನ್ನಿತರ ಹುದ್ದೆಗಳಿಗೆ ಕ್ರೀಡಾಪಟುಗಳೇ ಮುಂದೆ ಬಂದಿರುವುದು, ಕೆಎಸ್‌ಸಿಎ ಕಟ್ಟಡದ ದಾರಿಗಳಲ್ಲಿ ಮೊದಲ ಬಾರಿಗೆ ‘ಡ್ರೆಸ್ಸಿಂಗ್‌ ರೂಂ‌ ಭಾಷೆ’ ಕೇಳಿಬರಲು ಶುರುವಾಗುವ ಸೂಚನೆ. ಇದು ಕೇವಲ ಪ್ಯಾನೆಲ್‌ ಬದಲಾಗುವ ಘಟನೆ ಅಲ್ಲ; ಕೆಎಸ್‌ಸಿಎ ಆತ್ಮ ಬದಲಾಗುತ್ತಿರುವ ಬೆಳಕು.​
ಚಿನ್ನಸ್ವಾಮಿ ಕನಸುಗಳಿಗೆ ಹೊಸ ಅಂಪೈರ್‌ ಸೈಗ್ನಲ್‌

ಇತ್ತೀಚಿನ ಭೂತಕಾಲದಲ್ಲಿ ಚಿನ್ನಸ್ವಾಮಿ ಕ್ರೀಡಾಂಗಣಕ್ಕೆ ಜಾಗತಿಕ ಟೂರ್ನಮೆಂಟ್‌ಗಳು ಸಿಗದೇ ಹೋದ ನೋವು, ಪ್ರತಿಯೊಬ್ಬ ಬೆಂಗಳೂರಿನ ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ ಪ್ರೇಮಿಗೆ ಚುಚ್ಚಿದ ಗಾಯ. ಪ್ರಸಾದ್ ಈಗಾಗಲೇ “ಅಂತಾರಾಷ್ಟ್ರೀಯ ಪಂದ್ಯಗಳನ್ನು ಮರಳಿ ತರುವೆ” ಎಂಬ ದಿಶೆಯಲ್ಲಿನ ತನ್ನ ಸಂಕೇತವನ್ನು ಸ್ಪಷ್ಟಪಡಿಸಿದ್ದಾನೆ – ಇದು ಕೇವಲ ಭರವಸೆ ಅಲ್ಲ, ತನ್ನದೇ ನಗರದ ಗೌರವಕ್ಕಾಗಿ ರನ್‌ ಚೇಸ್‌ ಪ್ರಾರಂಭಿಸಿದ ನಾಯಕನ ಉಸಿರು.​

ಇನ್‌ಫ್ರಾಸ್ಟ್ರಕ್ಚರ್‌ ನವೀಕರಣ, ಗ್ರಾಸ್‌ರೂಟ್‌ ಕ್ರೀಡಾಕೇಂದ್ರಗಳ ಬಲಪಡಿಕೆ, ಜಿಲ್ಲಾಸ್ತರದ ಪ್ರತಿಭೆಗಳಿಗೆ ನಿಷ್ಠುರ ಅವಕಾಶ – ಇವೆಲ್ಲದರ ನಡುವೆ ನಾವು ಅಭಿಮಾನಿಗಳು ಬಯಸುವದು ಒಂದೇ: “ಕೆಎಸ್‌ಸಿಎ ಮತ್ತೆ ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ ಸ್ಟೋರಿ ಬರೆದಲಿ, ಫೈಲ್‌ ಸ್ಟೋರಿ ಅಲ್ಲ.”​
ಅಭಿಮಾನಿಯ ಹೃದಯದಿಂದ ಬರೆಯುವ ಶುಭಾಶಯ

ಒಬ್ಬ ಗಟ್ಟಿದ ಮನಸ್ಸಿನ ಭಾರತೀಯ ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ ಅಭಿಮಾನಿಗೆ, ಇದು ಕೇವಲ ಸಂಘಟನಾ ಚುನಾವಣೆ ಅಲ್ಲ, ಒಮ್ಮೆ ತನ್ನ ಕಾಲಿನಲ್ಲಿ ಬೆವರು ಚೆಲ್ಲಿದ ವೇಗಿ, ಈಗ ಆಡಳಿತದ ಮಟ್ಟದಲ್ಲೂ ನಮ್ಮ ಪರ ಓಡಲು ಸಿದ್ಧನಾಗಿದ್ದಾನೆ ಎಂಬ ಭಾವನಾತ್ಮಕ ಕ್ಷಣ. ಜಾವಗಲ್ ಶ್ರೀನಾಥ್ ಜೊತೆ ಹೊಸ ಚೆಂಡು ಹಂಚಿಕೊಂಡಿದ್ದ ಆ ‘ವೆಂಕಿ’, ಈಗ ಕರ್ನಾಟಕ ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ನ ಭವಿಷ್ಯ ಎಂಬ ಹೊಸ ಚೆಂಡನ್ನು ತನ್ನ ಕೈಯಲ್ಲಿ ಹಿಡಿದಿದ್ದಾನೆ.​

“ಒಮ್ಮೆ ಫೈಟರ್‌, ಸದಾ ನಮ್ಮ ಲೀಡರ್‌” – ಇದು ಕೇವಲ ನಾರಾ ಅಲ್ಲ, ಅನೇಕ ಹೃದಯಗಳ ಧ್ವನಿ. ಕ್ರೀಸ್‌ ಮಧ್ಯೆ ಒಬ್ಬ ವೇಗಿ ತನ್ನ ರನ್‌ಅಪ್‌ ಆರಂಭಿಸಿದಾಗ ಸ್ಟೇಡಿಯಂ ಎದ್ದು ಚಪ್ಪಾಳೆ ಹೊಡುವ ಹಾಗೆ, ಇಂದು ಕೆಎಸ್‌ಸಿಎ ಕಟ್ಟಡದ ಮುಂದೆ ನಿಂತು ನಮ್ಮ ಮನಸ್ಸು ಒಂದೇ ಮಾತು ಹೇಳುತ್ತಿದೆ – ಹಾರ್ದಿಕ ಅಭಿನಂದನೆಗಳು ವೆಂಕಟೇಶ್ ಪ್ರಸಾದ್ ಸರ್‌, ಇನ್ನು ಮುಂದೆ ಪ್ರತಿಯೊಂದು ನಿರ್ಧಾರವೂ ಒಂದು ಕ್ಲೀನ್‌ ಬೌಲ್ಡ್‌ ಆಗಲಿ, ಕರ್ನಾಟಕ ಕ್ರಿಕೆಟ್‌ ಪರ!

وطن کی نغمۂ محبت — ’’وندے ماترم‘‘ کا نیا تناظر

وطن کی نغمۂ محبت — ’’وندے ماترم‘‘ کا نیا تناظر تحریر: جمیل احمد ملنسار ایک نغمہ، ایک ملت ہندوستان کی تاریخ میں چند نغمے ایسے ہیں جو صرف بو...