Thursday, 4 December 2025

ایمان، شفقت اور حدود — بنگلور کی ایک غلط فہمی پر فکری غور




بنگلور کی فضا حال ہی میں ایک معروف سیکولر ہندو سیاسی رہنما کے انتقال پر غمناک تھی۔ آخری رسومات میں سب شریک تھے — دوست، رفقا، اہلِ سیاست، عام شہری — سب جن کے دلوں میں مرحوم کی یاد باقی تھی۔ انہی گھڑیوں میں ایک واقعہ ہوا جس نے بحث چھیڑ دی: ایک مقامی مسلم تاجر نے مرحوم کی مغفرت کے لیے دعا کی اور چند حاضرین نے برملا "آمین" کہہ کر ساتھ دیا۔ بعد ازاں، مذکور شخص نے سوشل میڈیا پر اظہارِ ندامت کیا اور اپنے عمل کو ’’غلطی‘‘ قرار دیا۔
یہ واقعہ معمولی معلوم ہوتا، مگر اصل مسئلہ کہیں گہرا ہے۔ یہ اس نازک لکیر سے متعلق ہے جہاں جذبۂ انسانی اور حدورِ ایمانی آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ اسلام انسانیت، ہمدردی اور رواداری کی بھرپور تعلیم دیتا ہے، مگر اس کے دائرے میں عقیدہ و آخرت کی حدود ایسی ہیں جنہیں جذبۂ نرم دلی سے عبور نہیں کیا جا سکتا۔
قرآنِ کریم سورۃ التوبہ (آیت 113) میں نہایت صراحت سے فرماتا ہے:
“نبی اور اہلِ ایمان کے لیے روا نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر ظاہر ہو چکا ہو کہ وہ دوزخی ہیں۔”
یہ آیت ایک فیصلہ کن اصول عطا کرتی ہے — کہ ایمان کا دائرہ ہمدردی کی وسعتوں کا احترام کرتا ضرور ہے، مگر عقیدے کے جو حصے اللہ سے وابستہ ہوں، وہاں انسانی تاویل کی گنجائش نہیں۔ خود حضور ﷺ کو اپنے مہربان چچا ابو طالب کے لیے دعا سے روک دیا گیا، حالانکہ ابو طالب نے ہر مرحلے پر نصرت و حمایت کی۔ لیکن چونکہ ایمان نصیب نہ ہوا، مغفرت کی دعا ممنوعہوا ۔ فقہا کا اجماع بھی اسی پر قائم ہے کہ غیر مسلم کے لیے رحمت یا مغفرت کی دعا جائز نہیں، چاہے جذبۂ خیر کتنی بھی صادق ہو۔
اب مسئلہ محض دعا نہ رہا — یہ ایمان و احساس کے تقاطع پر ایک فکری سوال بن چکا ہے۔ کیا جذبۂ خیر عقیدے کی لکیر مٹا سکتا ہے؟ اسلام کا جواب واضح ہے: نہیں۔ مغفرت کی دعا اس روحانی حدود کو چھیڑنا ہے جس کی حفاظت خود توحید کرتی ہے۔
البتہ اسلام انسانیت کے جذبات سے بے نیاز نہیں۔ اہلِ ایمان کو دکھ کی گھڑی میں غیر مسلم کے خاندان سے ہمدردی، تسلی اور حوصلے کے کلمات کہنے کی اجازت ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں: “اللہ آپ کو صبر دے، قوتِ برداشت عطا کرے، دلوں کو سکون بخشے۔” مگر جنازے کے موقع پر یا بعد از وفات، مرحوم کے لیے مغفرت

مانگنا شرعاً ممنوع ہے۔
یہاں اصل امتحان یہی ہے کہ انسان اپنے احساسات کو ایمان کے سانچے میں ڈھالے۔ سچا مؤمن جذبات کا غلام نہیں ہوتا، وہ اللہ کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ اگر بھول میں حدود تجاوز ہو جائے تو توبہ لازم ہے — توبہ، جو بندے کو اپنے رب سے جوڑ دیتی ہے اور ایمان کو پھر سے صاف کر دیتی ہے۔
آج کے عہد میں، جہاں مذاہب کے درمیان میل جول عام ہے، ہمیں جذبۂ احترام کے ساتھ علمِ دین کی وضاحت بھی یاد رکھنی ہوگی۔ انسانوں کے ساتھ نرمی لازم ہے، مگر ایمان کی بنیاد پر سمجھوتہ ناقابلِ تصور۔
سچّا رحم کبھی حق کو بدلنے میں نہیں ہوتا، بلکہ حق سے رہنمائی لینے میں ہوتا ہے۔ اسلام کا حسن یہی ہے کہ اس کی رحمت اصول کی روشنی میں جلوہ گر ہے — نہ انتہا میں سختی، نہ نرمی میں کمزوری۔ ایمان کی اصل یہی ہے: جذبے میں نرمی، عقیدے میں استقامت۔



No comments:

Post a Comment

Flights on the Ground! Air Travel — A Journey or a Punishment?

Flying is no longer an aspiration of the common man; it has become an amusement for the opulent — a skyward escape funded by endlessly deep ...