بھارت وہ ملک ہے جہاں جمہوریت کا نعرہ ہر طرف گونجتا ہے، مگر اس کے پیچھے چھپی سچائی کچھ اور ہے — سناٹا اور موت کی سرگوشی۔ انتخابی کمیشن کے افسر، جنہیں بوث لیول آفیسرز (BLOs) کہا جاتا ہے، اصل میں جمہوریت کے خاموش محافظ ہیں۔ یہ لوگ نہ کال کوٹھریوں میں بیٹھے ہیں، بلکہ گلیوں کوچوں، دیواروں پر نام لکھتے ہوئے، شہریوں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ خصوصی جامع تجدید (SIR) کے نام پر ہو رہا ہے، جس کا مقصد ووٹر لسٹ کو "صاف" کرنا ہے۔ اس کے تحت ہر ووٹر کی جانچ ہوتی ہے تاکہ کوئی "بھوت ووٹر" باقی نہ رہے اور انتخاب صاف ہو۔ مگر اس "صفائی" کا بوجھ وہی اٹھاتے ہیں جنہیں معاشرہ نظر انداز کرتا ہے۔
بی ایل او کی موتوں کا سلسلہ: کیا یہ محض اتفاق ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ مغربی بنگال میں صرف ایک سال میں 40 سے زائد بی ایل او موت کا شکار ہو چکے؟
ایک معصوم استانی نے زہر پی لیا، جبکہ غریب افسر ریت پر گر کر جان دے دی۔
ہزاروں بی ایل او تھکاوٹ، بیماری اور دباؤ سے زندگی ہار رہے ہیں — کیا یہ "محنت" ہے یا خون کا دریا؟
کیا ہم ان قربانیوں کو بھول جائیں گے؟
سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگاتی ہیں کہ یہ سب مخالف ووٹروں کو ختم کرنے کا منصوبہ ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ یہ محنت کا دباؤ ہے، کوئی سازش نہیں۔ مگر عوام کی نظر میں یہ زہر کی بوتل ہے، نہ کہ دوا۔
جنوبی ہندوستان کے دیہات، شمالی پنجاب کے کھیت، مغرب کے جنگلات، یہاں تک کہ دمن و دیو کے چھوٹے جزائر میں بھی بی ایل او کی صورتحال ایک جیسی ہے۔ انہیں نہ کوئی اضافی تنخواہ ملتی ہے، نہ کام کرنے کے حالات بہتر ہیں۔ بس ایک روزمرہ کا عہدہ اور دھندلی روشنی میں محنت کا بار۔
سیاستدان عوام کو جمہوریت کا نعرہ دیتے ہیں، مگر جب ان کے محافظوں پر ایسا دباؤ پڑتا ہے کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، تو یہ جمہوریت خود سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ جب نظام اپنے محافظوں کو مارنے لگے، تو اس کا وجود خود مشکوک ہو جاتا ہے۔
یہی چھوٹے چھوٹے لوگ، چھوٹے چھوٹے محافظ، جنہیں ہم روزمرہ کی زندگی میں بھلا دیتے ہیں، ہمارے جمہوری نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان کی قربانی کے بغیر کوئی انتخاب حقیقی معنوں میں آزاد اور شفاف نہیں ہو سکتا۔
آخر میں: اب جاگنے کا وقت آ گیا!
آئیں، آج سے عہد کریں کہ ان خاموش شہداؤں کی آواز بنیں گے — سڑکوں پر، سوشل میڈیا پر، اور ہر فورم پر ان کی جدوجہد کو بلند کریں گے۔ اگر ہم خاموش رہے تو یہ جمہوریت نعروں اور لاشوں کا مجموعہ بن جائے گی، مگر اگر ہم اٹھے تو یہ نظام اپنی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط بنا لے گا۔ انقلاب کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے — ہمارے ہاتھوں میں، ہماری آواز میں

No comments:
Post a Comment