Saturday, 28 October 2017

اتر پردیش میں لاءاینڈ آڈر کا مسئلہ تشویشناک

ڈاکٹر محمدمنظور عالم

ہندوستان میں قتل وغارت گری ،لوٹ مار،ریپ ،ڈاکہ زنی ،کرپشن اور اس جیسے دیگر جرائم بکثرت وقوع پذیرہوتے ہیں،انتظامیہ اور ارباب اقتدار جرائم پر قابو پانے میں ہمیشہ ناکام نظر آتے ہیں،ہمیشہ اور ہر انتخاب میں ماضی کی تاریک تصویروں کو دیکھاکر روشن مستقبل کا خاکہ پیش کرکے ووٹ مانگا جاتاہے لیکن سرکاریں بن جانے کے بعد لاءاینڈ آڈر کا نظام جوں کا توں برقرار رہتاہے ،حکومتیں اپنے وعدوں کی تکمیل اور عوامی فلاح وبہبود کاکام کرنے کے بجائے اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر عوام کا استحصال شروع کردیتی ہیں ،اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران بھی عام انتخابات کی طرح بی جے پی نے بہت سارے سبز باغ دکھائے ،دیگر امور کے ساتھ کرائم ،کرپشن ،ریپ اور قتل کے موضوعات پر سابقہ سماج وادی سرکار کی کھل کر مذمت کی ،اکھلیش حکومت کو ناکام قراردیا ،عوام سے ریاست اتر پردیش کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے ،جرائم پر قابو پانے اورلاءاینڈ آڈر کا مسئلہ درست کرنے کا وعدہ کیا لیکن حکومت بن جانے کی بعد اتر پردیش کی صورت حال اور زیادہ بدتر ہوچکی ہے ،جو صورت حال اکھلیش حکومت کے گذشتہ پانچ سالوں میں یوپی کی نہیں ہوئی تھی اس سے زیادہ بری حالت صرف پانچ مہینے میں ہوگئی ہے۔یوگی حکومت کے دو ماہ مکمل ہونے کے بعد اسمبلی میں رپوٹ پیش کی گئی تھی ” صرف دوماہ میں 8 سو سے زائدریپ کے واقعا ت پیش آئے جبکہ اتناہی قتل کی وارادت بھی ہوئی “ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپوٹ کے مطابق 2016 میں 15 مارچ سے 15 اپریل کے درمیان اترپردیش میں ریپ کے صرف 41 واقعات درج کئے گئے تھے جبکہ 2017 میں مذکورہ مدت کے درمیان 179 واقعات درج کئے گئے ہیں،انہیں ایا م میں سال گذشتہ قتل کے صرف 101 واقعات پیش آئے تھے جب کہ یوگی حکومت میں 273 قتل کے واقعات انجام دیئے گئے ہیں،ایک سروے کے مطابق اکھلیش سرکار میں ایک سال کے دوران جتنے واقعات پیش آتے تھے یوگی حکومت میں صرف پانچ ماہ کے دوران اس سے دوگنا حادثات پیش آچکے ہیں، علاوہ ازیں بہت سے لوگوں کی شکایت یہ ہے کہ پولس میں ان کی ایف آئی آر درج نہیں ہورہی ہے ،ان کے ساتھ ہونے والے واقعات پر پولس کوئی ایکشن نہیں لیتی ہے ۔

بی جے پی حکومت بننے کے بعد یوپی کے ضلع سہارنپور کو گجرات بنانے کی کوشش کی گئی ،دلتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ،بڑی ذات کے لوگوں نے دلتوں پر ظلم وستم کی انتہاءکردی ،بھیم راﺅ امبیڈکر جینتی پر انہیں مورتی نصب کرنے سے روک دیا گیا ،کچھ دنوں بعد جب دلتوں کے گاﺅں شبیر پور میں راجپوتوں نے پہلی مرتبہ مہارانا پڑتاب کی جینتی پر ریلی نکالی تو دلتوں نے بھی مخالفت کی ،راجپوتوںنے اس بات پر دلتوں کی بستی کو آگ لگادی ،شبیر پور گاﺅں کے میں چن چن کر ان مکانوں کو آگ کے حوالے کردیا گیا جس کے بارے میں پتہ چلاکہ یہ دلت کا ہے ،کئی لوگوں کاقتل کیا گیا ،کھیتوں میںکام کرکے شب وروز کی ضروریات کی تکمیل کرنے والے دلتوں کا سب کچھ لوٹ لیا گیا ،ہندوستان ٹائمز کی رپوٹ کی مطابق پچاس سے زائد مکانات نذر آتش کئے گئے ،مردوں ،عورتوں اور بچوں پر حملہ کیا گیا ،ایک خاتون نے میڈیا پرسن سے بات کرتے ہوئے یہاں تک بتایا ہے کہ ان کا پستان کاٹنے کی کوشش کی گئی ، دلتوں کا الزام ہے کہ پولس نے نے دو گھنٹے کیلئے راجپوتوں کو ہمیں تباہ وبربادکرنے کیلئے مکمل چھوٹ دے دی تھی ، چھ ہزار افراد تلوار ،لاٹھی ،بندو ق اور دیگر ہتھیاروں کے ساتھ ہم پر حملہ آور تھے ،وہ ہمیں دھمکیاں دے رہے تھے ،ہماری بیٹیوں کی عزتیں تارتار کرنے کی باتیں کر رہے تھے ،خوف اور دہشت کے مارے ہم سب اپنے گھروں کو چھوڑ کے میدانوں اور جنگلوں کی جانب جان بچانے کیلئے نکل پڑے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ان دلتوںکو انصاف نہیں مل سکا ہے ،ظالموں کو کیفر کردار تک نہیں پہونچا گیا ہے ،غریبوں اور مزدروں کے کو ان کے حقوق نہیں مل سکے ہیں،بلکہ اطلا ع یہ ہے کہ الٹے انہی دلتوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ یوگی نے حلف برداری کے بعد سب سے پہلا کام غیر قانونی سلاو ئٹر ہاﺅس کو بند کرنے کا کیاتھا،کہاگیاتھا کہ اس فیصلہ کا مقصد آلودگی پر قابو پانا اور گندگی کو دور کرنے کے ساتھ ریاست میں قانون کی حکمرانی کو بحال کرنا ہے لیکن پس پردہ اس کا اصل مقصد مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزورکرنا اور ان کی تجارت کو نقصان پہونچاناتھا،سبھی جانتے ہیں کہ گوشت کے چھوٹے کاروباریوں میں زیادہ تر مسلمان ہیں ، اس فیصلے سے انہیں لوگوں کی دکانیں بند ہوئیں ، چمڑے کے تاجروں کا بہت بڑا خسارہ ہوالیکن گوشت کے بڑے تاجروں کا کچھ نہیں ہوا،چونکہ اعلی سطح پر گوشت کی تجارت میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم برادری کے لوگ ہیں ،ہندوستان آج بھی بیف ٹرانسپورٹ میں نمبر ون ہے، سلاﺅٹر ہائس کی منظوری کیلئے جو شرطیں رکھی گئی ہیں وہ بہت زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہیں ،اس پر عمل کرنا بہت دشوار اور پریشان کن ہے ،مجموعی طور پر یہ کہئے کہ یوگی سرکا رکا یہ فیصلہ مسلمانوں کے درمیان نفرت کی فضاءقائم کرنے ، انہیں خوف زدہ کرنے اور ان کے حوصلوں کو پست کرنے کیلئے تھا۔لوگ بتاتے ہیں کہ یوپی میں اب شادی کرنی مشکل ہوچکی ہے ،پولس کھانا چیک کرنے آجاتی ہے ،کئی لوگوں کی شاد ی میں بنے گوشت کے ڈیگ کو زمین پر الٹ دیاگیا ۔

یوگی سرکار نے غیر قانوی سلائٹر ہاﺅس کے ساتھی ہی رومیو اسکواڈ کا سلسلہ شروع کیاتھا ،اس کا مقصد خواتین کی حرمت اور منچلوں سے انہیں محفوظ رکھنا تھا لیکن اس کا الٹا ہی اثر ہوا،خواتین کے ساتھ ریپ کی شر ح دوگنی بڑھ گئی ، پولس والے پارک میںٹہل رہے میاں بیوی پر لاٹھیاں چار ج کرنے لگے،کئی جگہ پولس والے ہی عورتوں کو چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے پکڑے گئے ،یوگی سرکار کے اس فیصلہ کو میڈیا میں بہت کوریج ملی لیکن نتیجہ مکمل طو رپر صفر رہا،زمینی سطح پر لاءاینڈ آڈر کا مسئلہ بالکل ہی درست نہیں ہوسکا ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ سکتے ہیں کہ رومیو اسکواڈ کے فیصلے سے سستی شہرت ضرور ملی لیکن لاءاینڈ آڈر کا مسئلہ درست نہیں ہوسکا ۔رمضان کے مہینے میں چلتی ٹرین میں ایک کانسٹیبل نے روزہ دار خاتون کے ساتھ ریپ کیا لیکن اس کو بھی کوئی سزا نہیں مل سکی اور نہ ہی حقوق نسواں کے تحفظ کا دعوی کرنے والی سرکار اب تک میرٹھ کی اس مظلوم خاتون کو انصا ف دے سکی ہے۔

اتر پردیش حکومت نے مذہبی منافرت کو آگے بڑھاتے ہوئے یوم آزادی کے موقع پر مدارس کے نام یہ سرکلر جاری کردیا کہ اہل مدارس 15 اگست پر تقریب کااہتمام کریں،جھنڈا لہرائیں ،قومی ترانہ گائیں اور اس کی ویڈیو گرافی کراکر حکومت کو ارسال کریں ،جو مدارس اس کی پابندی نہیں کریں گے ان پر سزا عائدہوگی ،یہ نوٹس واضح طور پر ایک سیکولر ملک میں نفرت پیداکرنے پر مبنی تھی ، مسلمانوں پر شک کرنے ،ان کی خدمات اور قربانیوں کو فرامو ش کرنے اور انہیں رسوا کرنے کی کوشش تھی ،مختلف مذاہب کے لوگ یہاں رہتے ہیں،سینکڑوں نسل اور ذات کے قبیلے یہاں آباد ہیں لیکن اس کے باوجودصرف دینی مدارس کے نام یہ سرکلر جاری کرکے جان بوجھ کر مدار س کو ٹارگٹ کیا اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان ملک سے محبت نہیں کرتے ہیں،وہ پاکستان نظریہ کے قائل ہیں، ا ن کی حب الوطنی کا امتحان لینا ضروری ہے چونکہ یہ ملک کے دشمن ہیں ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یوگی سرکار کا یہ اقدام ملک کے سیکولزم اور جمہوری آئین کے منافی تھا ،ماہرین قانون کا بھی مانناہے کہ حکومت کو اقلیتوں کے مسائل میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی دینی مدارس یوم آزای کی تقریب منعقد کرنے کے پابند ہیں،الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی سخت نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے پر یوگی سرکار سے جواب طلب کیا ہے ۔ دوسری جانب یوگی سرکار ہندﺅوں کی مذہب کے نام پر کھل کر حمایت کرتی ہے ،ہندو مذہب کے لوگوں کی سرکاری سطح پر امداد کرتی ہے،جب اپوزیشن اور ملک کی عوام کی جانب سے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کے ان اقدامات پر اعتراض کیا جاتاہے تو ان کا جواب ہوتاہے کہ اگر ہم اپنے ہندو بھائیوں کیلئے اتنا بھی نہیں کرسکتے ہیں؟ مذہبی رسومات کے دوران ہم سرکاری سطح پر مدد نہیں کرسکتے ہیں؟ تو پھر ہمارے وزیر اعلی بننے کا فائدہ کیا ہوگا ؟۔حال ہی میں کونڑیا یاترا کے موقع پر آدتیہ ناتھ نے بڑی تعداد میں گلر درختوں کو کٹوائے جبکہ درختوں کی بقاءملک کو آلودگی سے پاک رکھنے ،امراض کے خاتمہ ،صاف فضاءاور اس جیسے چیزوں کیلئے بہت اہم ہے ،یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے جن درختوں کو کاٹا گیا تھا اس میں اکثریت گلر کی تھی جس سے ایک خاص بیماری کی دوا بنتی ہے اور اس جیسے درخت کا ختم کیاجانا کئی سطح پر نقصان کا سبب بنتاہے۔ 

اتر پردیش میں یوگی سرکار کے آنے کے بعد صحت محکمہ بھی بدحالی کا شکارہے ،ہسپتال قتل خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں،اپنے بچوں کو علاج کیلئے ہسپتال جانے والے والدین وہاں سے لاش لیکر لوٹ رہے ہیں،گورکھپور ہسپتال میں ایک ماہ کے دوران290 بچوں کی اموات ہوچکی ہیں ،فرخ آباد ہسپتال میں بھی صرف ایک ماہ کے دوران 49 بچے موت کی آغوش میں جاچکے ہیں،ہسپتالوں میں یہ تمام اموات گیس اور آکسیزن کی کمی کی وجہ سے ہوئی ہیں ،لیکن حکومت ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ،کبھی ان اموات کیلئے اگست کے مہینے کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے تو کبھی ان ڈاکٹر وں کو ہی ملزم قرار دیتی ہے جنہوں نے دن ورات ایک کرکے ہسپتال کے نظام کو بہتر بنانے اور بچوں کا علاج کرنے کی کوششیں کی ۔سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ گورکھپورسے وزیر اعلی پانچ مرتبہ ایم پی رہ چکے ہیں ،یہ ان کا گھریلو حلقہ انتخاب ہے اور جب پانچ مرتبہ ایم پی رہنے کے باوجود یہاں کے مسائل کو حل نہیں کرسکے ہیں،بی آرڈی ہسپتال کا نظام درست نہیں کرسکے ہیں تو تو پھر پورے صوبے کو خدابھروسے ہی چھوڑا جاسکتاہے ۔ خلاصہ یہ کہ اتر پردیش میں یوگی سرکار آنے کے بعد لاءاینڈر آڈر کا مسئلہ بہت زیادہ بگڑچکاہے ،قتل ،اقدام قتل،عصمت دری ،کرپشن اور اس طرح کے جرائم پرقابوپانے میں حکومت مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے ،دوسری جانب فلاح وبہبود کاکام بھی حکومت نہیں کررہی ہے ،عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں سرکار ناکام نظر آرہی ہے ،سماج میں فرقہ واریت کا زہر تیزی سے پھیل رہاہے ،ہر طرف نفرت کا ماحول بناہواہے ،سرکار ہندوبنام مسلم کے نظریہ پر گامزن ہے ۔ عوام میں حکومت کے تئیں بدظنی پھیلنے لگی ہے ،شروع کے دو ماہ تک شب وروز یوگی سرکار کی قصیدہ خوانی کرنے والی میڈیا بھی اب حقائق پر بات کرنے لگی ہے ،یوپی میں لاءاینڈ آڈر کے مسئلے پرسوال اٹھارہی ہے او ر ہر محاذ پر یوپی کی یوگی سرکار کو ناکام قراردے رہی ہے ۔

( مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)

No comments:

Post a Comment