Wednesday, 13 September 2017

ملی کونسل اور آئی او ایس کے زیر اہتمام امیر شریعت کرناٹک مفتی اشرف علی باقوی کی وفات پر تعزیتی نشست کاانعقاد (CONDOLENCES)


نئی دہلی(پریس ریلیز۔13 ؍ستمبر؍2107)
ہندوستان کے معروف عالم دین، جنوبی ہند کی قد آور شخصیت اور آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر امیر شریعت کرناٹک مولانا مفتی اشرف علی باقوی مہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد کرناٹک کی وفات پر آج آل انڈیا ملی کونسل اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا ،اس موقع پر آل انڈیا ملی کونسل کے صدر مولانا عبد اللہ مغیثی نے کہاکہ مفتی اشرف علی باقوی بے شمار خوبیوں کے مالک تھے ،ان کے اندر ،علم ،تنظیم ،حلم اور عمل جیسی تمام صفات موجود تھیں،ملی کونسل کے کارواں کو آگے بڑھانے میں ان کا نمایاں کردار رہاہے ۔ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم نے کہاکہ ان کی ذات میں بے شمار خوبیاں پائی جاتی تھیں،وہ ادیب ،شاعر ،فقیہ اور محدث ہونے کے ساتھ بہت اچھے منتظم بھی تھے،مختلف مذاہب کے درمیان رابطہ کاکام بحسن وخوبی انجام دیتے تھے ،حکومت انہیں قریب سمجھتی تھی ،وزراء ان سے مشورہ لیتے تھے ،افسران ان کے یہاں حاضری دیتے تھے،مذہبی تفریق کے بغیر نوجوانوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے فکرمند تھے،مسلکی تفریق کے بغیر تمام لوگوں کے یہاں پہونچتے تھے ،ڈاکٹر منظو رعالم نے کہاکہ جنوبی ہند کے ساتھ کرناٹک میں آپ مکاتب فکر کے درمیان متفق علیہ تھے ۔انہوں نے کہاکہ وہ چراغ بجھا نہیں ہے بلکہ ہزاروں چرا غ کو جلاکر گیا ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ ملی کونسل کی تحریک کو آگے بڑھانے میں ہمیشہ ان کا خصوصی کردار رہاہے اور بہت سارے اجلاسوں کی انہوں نے سرپرستی کی اور ایک اچھے منتظم کا ثبوت پیش کیا ۔
مولانا صفدر حسین ندوی نے اپنے تاثرا ت کا اظہار کرتے ہوئے کہاعلوم فقہ اور شریعت کی باریکیوں پر آپ گہری نظر تھی ،اس موقع پر انہوں نے کویت میں مقیم معرو ف عالم دین مولانا بدر الحسن قاسمی کا بھیجے ہوئے پیغام کو بھی پڑھ کر سنایا ۔مولانا بد الحسن قاسمی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مفتی اشرف علی صاحب کی موت کسی ایک فرد کی موت نہیں بلکہ ایک زمانہ کی موت اور پوری ملت کا خسارہ ہے، وہ علمی اعتبار و استناد کے ساتھ عالمانہ وقار و مصلحانہ و داعیانہ اوصاف سے سرشار اور جذبہ عمل سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے، ان کی ظاہری سطح بیحد خاموش اور پْرسکون نظر آتی تھی لیکن ان کے دل میں ایک آتش فشاں تھا جو ان کو بیچین رکھتا تھا اور ملت کا ہر المیہ ان کو مضطرب کردیتا تھا۔ان کا دائرہ عمل صرف جنوبی ہند، صوبہ کرناٹک تک محدود نہیں تھا، چنانچہ ملک کے تقریباً سبھی متحرک اور فعال اداروں سے نہ صرف وہ وابستہ تھے بلکہ ان کی سرگرمیاں خود ان کی زندگی کا ایک حصہ تھیں۔
مفتی احمد نادر القاسمی نے کہاکہ علم حدیث کے بڑے اساتذہ میں مفتی اشرف علی باقوی کا نام شامل تھا،شمال اور جنوب کے رمیان حائل خلیج کو پاٹنے کا کام آپ نے کیا ،آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا ،افہام وتفیم کا زبردست ملکہ تھا،ان کی کوشش تھی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق ہندوستان کا مسلم معاشرہ تشکیل پائے ۔
مفتی امتیاز احمد قاسمی نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ آپ اسلامک فقہ اکیڈمی کے نائب صدر تھے اس لئے ہمیشہ شاگردانہ تعلق رہا ،چھوٹوں سے بہت شفقفت اور محبت کرتے تھے ،تربیت سازی کا بہترین نظام تھا،ان کاعلمی ذوق ہم سبھوں کیلئے مشعل راہ ہے ،ان کے نمازہ جنازہ میں موجود جم غفیر اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی وفات سے ہر شخص غمزدہ ہے ۔
آل انڈیا ملی کونسل کی دہلی یونٹ کے صدر مولانا مرزا ذکی احمد بیگ نے اپنے تعزیتی بیان میں کہاکہ 2006 میں میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی اور بہت متاثر ہوا،ان کے مدرسہ ڈسپلن بہت ہے ،طلبہ کی تربیت اور بہتر ین تعلیم کی فراہمی پر ان کی خاص توجہ رہتی تھی ۔
محترمہ پروفیسر حسینہ حاشیہ نے اپنے تعزیتی بیان میں کہاکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی یادیں ہمیشہ باقی رہتی ہیں،آپ بڑ ے پایہ کے عالم او رمحدث تھے ،قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ آپ کا تذکرہ کرتے تھے ،اور غائبانہ تعلق تھا،2000 میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی ۔انہوں نے کہاکہ وہ دلوں کو جوڑنے کا کام کرتے تھے حتی الامکان اختلاف ختم کرتے تھے ۔
مولانا عبد المالک مغیثی صدر ملی کونسل سہارنپور نے کہاکہ وہ ہم سبھوں کیلئے مشعل راہ تھے ،ان کیلئے سچی خراج عقیدت یہ ہوگی ہم ان کے نقش قدم پر چلیں ۔جناب وسیم نے کہاکہ وہ بے پناہ شفقت ومحبت کرتے تھے اور ہر کسی کو احساس ہوتاتھا کہ سب سے زیادہ محبت اسی سے کرتے ہیں ۔مولاناعتیق الرحمن رشادی نے کہاکہ آپ کی وفات سے جنوبی ہندوستا ن میں بہت بڑا خلاپیدا ہوگیا ۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر نکہت نے بحسن وخوبی انجام دی ۔
تعزیتی نشست میں مولانا عتیق احمد بستوی ،صفی اختر ،بسمل عارفی ،مولانا خالدحسین ندوی ،حامد خان،نوراللہ ،اقبال حسن ،عطا حسین سمیت متعدد لوگوں نے شرکت کی اور صدر اجلاس مولانا عبد اللہ مغیثی کی دعاء پر تعزیتی نشست اختتام پذیر ہوئی ۔
پی آر او 
آل انڈیا ملی کونسل 

Monday, 4 September 2017

Sultan Ahmed

SultanAhmed ( Member of Parliament) MP, Trinamool Congress Passed away,With his sudden demise, community has lost a credible voice. May Allah raise his darajaat.
Aameen.
Ahmad's political career started as a Chatra Parishad member (student wing of Indian National Congress) during his college days at Maulana Azad College during the early '70s. He joined Youth Congress in 1973, and was District Secretary of Youth Congress from 1978-80.
sultan ahmed, sultan ahmed dead, sultan ahmed passes away
Trinamool Congress MP Sultan Ahmad passed away on Monday after a cardiac arrest. He was leading the Trinamool Congress’s minority wing. “Shocked and deeply saddened at the passing of Sultan Ahmed sitting @AITCOfficial LS MP & my long term colleague. Condolences to his family,” Banerjee tweeted.

Ahmed was elected to the Lok Sabha from the parliamentary constituency Uluberia in 2014, and was a two-time MLA from Entally. Ahmad also served as a Minister of State for Tourism in Manmohan Singh government.

Ahmad’s political career started as a Chatra Parishad member (student wing of Indian National Congress) during his college days at Maulana Azad College during the early ’70s. He joined Youth Congress in 1973, and was District Secretary of Youth Congress from 1978-80. In the year 1997, Mamata Banerjee along with Sultan Ahmed and other rebel Congress leaders formed the All India Trinamool Congress. He was also the President of Mohammedan Sporting Club, Kolkata.



ایم پی سلطان احمد سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ملی ہمدردی کے جذبہ سے سرشار لیڈر تھے 
خداانہیں غریق رحمت کرے :ڈاکٹر منظور عالم
نئی دہلی(پریس ریلیز۔4 ستمبر 2017)
مرحوم سلطان احمد سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ دل درمند رکھنے والے قائد تھے ،سیاست کے ساتھ ملی امور اور مسلمانوں کے مسائل میں ان کی گہری دلچسپی تھی ،انہوں نے ہمیشہ سیاست کے ذریعہ ملک اور ملت کی خدمت کی اور ترجیحی طور پر مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑی ،ان خیالات کا اظہار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکرٹری اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر منظور عالم نے کیا ،انہوں نے کہاکہ میرے اور مرحوم سلطان احمد کے درمیان30 تیس سالوں سے دوستانہ تعلقات تھے ،مختلف مواقع پر اور مختلف تقریبات میں ہم لوگوں کی ملاقات ہوتی رہی ،ملت کے مختلف مسائل پر ہم لوگوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی اور ہمیشہ انہیں فکرمند پایا ،انہیں مسلمانوں کے مسائل کے تئیں بے چین دیکھا اور ہمیشہ انہوں نے اپنی سطح پر مسلمانوں کے مسائل حل کرنے اور پارلیمنٹ سے لیکر ہر مقام تک ان کی آواز بلند کی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے دواجلاس کی انہوں نے کولکاتا میں میزبانی بھی کی۔
انہوں نے کہاکہ ایم پی سلطان احمدکے انتقال سے مجھے ذاتی طور پر بہت صدمہ پہونچاہے اور یہ سیاست کے ساتھ ملت اسلامیہ ہند کیلئے بھی ایک بہت بڑا خلا ہے ،بڑی مشکل سے ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو سیاست کے میدان میں ہوتے بھی ملی ہمدردی کے جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں ، حزن وملال کی اس گھڑی میں ہم مرحوم سلطان احمد کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں اور دعاءگو ہیں کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ،اہل خانہ کو صبر جمیل عطاءفرمائے ۔(آمین)
اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ سلطان احمد گذشتہ چالیس سالوں سے سیاست میں متحرک وفعال تھے ،کانگریس سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں دو مرتبہ ایم ایل اے کا انتخاب بھی انہوں نے کانگریس کے ٹکٹ پر انٹالی حلقہ سے جیتاتھا،گذشتہ طویل عرصے ممتا بنرجی کی پارٹی ٹرنمول کانگریس میں تھے ،ٹی ایم سی کے ہی ٹکٹ پر الوبیریا لوک سبھا سے ایم پی تھی ،منموہن سنگھ کی حکومت میں مرکزی وزیر مملکت برائے ٹورزم بھی رہ چکے ہیں ۔
واضح رہے کہ سلطان احمد کافی دنوں سے علیل تھے اور کولکاتا کے پرائیوٹ ہسپتال بیلی وو کلینک میں علاج چل رہاتھا، تاہم آج انہیں تقریبا گیارہ بجے دل کا دوڑہ پڑا اور فورا ہسپتال پہونچایاگیا ،ڈاکٹروں نے علاج شروع کیا لیکن اسی دوران ان
کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور بارہ بج کر پندرہ منٹ پر ان کی موت کا اعلان کیاگیا ۔

With his sudden demise, community has lost a credible voice