نئی دہلی(پریس ریلیز۔13 ؍ستمبر؍2107)
ہندوستان کے معروف عالم دین، جنوبی ہند کی قد آور شخصیت اور آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر امیر شریعت کرناٹک مولانا مفتی اشرف علی باقوی مہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد کرناٹک کی وفات پر آج آل انڈیا ملی کونسل اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا ،اس موقع پر آل انڈیا ملی کونسل کے صدر مولانا عبد اللہ مغیثی نے کہاکہ مفتی اشرف علی باقوی بے شمار خوبیوں کے مالک تھے ،ان کے اندر ،علم ،تنظیم ،حلم اور عمل جیسی تمام صفات موجود تھیں،ملی کونسل کے کارواں کو آگے بڑھانے میں ان کا نمایاں کردار رہاہے ۔ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم نے کہاکہ ان کی ذات میں بے شمار خوبیاں پائی جاتی تھیں،وہ ادیب ،شاعر ،فقیہ اور محدث ہونے کے ساتھ بہت اچھے منتظم بھی تھے،مختلف مذاہب کے درمیان رابطہ کاکام بحسن وخوبی انجام دیتے تھے ،حکومت انہیں قریب سمجھتی تھی ،وزراء ان سے مشورہ لیتے تھے ،افسران ان کے یہاں حاضری دیتے تھے،مذہبی تفریق کے بغیر نوجوانوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے فکرمند تھے،مسلکی تفریق کے بغیر تمام لوگوں کے یہاں پہونچتے تھے ،ڈاکٹر منظو رعالم نے کہاکہ جنوبی ہند کے ساتھ کرناٹک میں آپ مکاتب فکر کے درمیان متفق علیہ تھے ۔انہوں نے کہاکہ وہ چراغ بجھا نہیں ہے بلکہ ہزاروں چرا غ کو جلاکر گیا ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ ملی کونسل کی تحریک کو آگے بڑھانے میں ہمیشہ ان کا خصوصی کردار رہاہے اور بہت سارے اجلاسوں کی انہوں نے سرپرستی کی اور ایک اچھے منتظم کا ثبوت پیش کیا ۔
مولانا صفدر حسین ندوی نے اپنے تاثرا ت کا اظہار کرتے ہوئے کہاعلوم فقہ اور شریعت کی باریکیوں پر آپ گہری نظر تھی ،اس موقع پر انہوں نے کویت میں مقیم معرو ف عالم دین مولانا بدر الحسن قاسمی کا بھیجے ہوئے پیغام کو بھی پڑھ کر سنایا ۔مولانا بد الحسن قاسمی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مفتی اشرف علی صاحب کی موت کسی ایک فرد کی موت نہیں بلکہ ایک زمانہ کی موت اور پوری ملت کا خسارہ ہے، وہ علمی اعتبار و استناد کے ساتھ عالمانہ وقار و مصلحانہ و داعیانہ اوصاف سے سرشار اور جذبہ عمل سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے، ان کی ظاہری سطح بیحد خاموش اور پْرسکون نظر آتی تھی لیکن ان کے دل میں ایک آتش فشاں تھا جو ان کو بیچین رکھتا تھا اور ملت کا ہر المیہ ان کو مضطرب کردیتا تھا۔ان کا دائرہ عمل صرف جنوبی ہند، صوبہ کرناٹک تک محدود نہیں تھا، چنانچہ ملک کے تقریباً سبھی متحرک اور فعال اداروں سے نہ صرف وہ وابستہ تھے بلکہ ان کی سرگرمیاں خود ان کی زندگی کا ایک حصہ تھیں۔
مفتی احمد نادر القاسمی نے کہاکہ علم حدیث کے بڑے اساتذہ میں مفتی اشرف علی باقوی کا نام شامل تھا،شمال اور جنوب کے رمیان حائل خلیج کو پاٹنے کا کام آپ نے کیا ،آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا ،افہام وتفیم کا زبردست ملکہ تھا،ان کی کوشش تھی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق ہندوستان کا مسلم معاشرہ تشکیل پائے ۔
مفتی امتیاز احمد قاسمی نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ آپ اسلامک فقہ اکیڈمی کے نائب صدر تھے اس لئے ہمیشہ شاگردانہ تعلق رہا ،چھوٹوں سے بہت شفقفت اور محبت کرتے تھے ،تربیت سازی کا بہترین نظام تھا،ان کاعلمی ذوق ہم سبھوں کیلئے مشعل راہ ہے ،ان کے نمازہ جنازہ میں موجود جم غفیر اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی وفات سے ہر شخص غمزدہ ہے ۔
آل انڈیا ملی کونسل کی دہلی یونٹ کے صدر مولانا مرزا ذکی احمد بیگ نے اپنے تعزیتی بیان میں کہاکہ 2006 میں میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی اور بہت متاثر ہوا،ان کے مدرسہ ڈسپلن بہت ہے ،طلبہ کی تربیت اور بہتر ین تعلیم کی فراہمی پر ان کی خاص توجہ رہتی تھی ۔
محترمہ پروفیسر حسینہ حاشیہ نے اپنے تعزیتی بیان میں کہاکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی یادیں ہمیشہ باقی رہتی ہیں،آپ بڑ ے پایہ کے عالم او رمحدث تھے ،قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ آپ کا تذکرہ کرتے تھے ،اور غائبانہ تعلق تھا،2000 میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی ۔انہوں نے کہاکہ وہ دلوں کو جوڑنے کا کام کرتے تھے حتی الامکان اختلاف ختم کرتے تھے ۔
مولانا عبد المالک مغیثی صدر ملی کونسل سہارنپور نے کہاکہ وہ ہم سبھوں کیلئے مشعل راہ تھے ،ان کیلئے سچی خراج عقیدت یہ ہوگی ہم ان کے نقش قدم پر چلیں ۔جناب وسیم نے کہاکہ وہ بے پناہ شفقت ومحبت کرتے تھے اور ہر کسی کو احساس ہوتاتھا کہ سب سے زیادہ محبت اسی سے کرتے ہیں ۔مولاناعتیق الرحمن رشادی نے کہاکہ آپ کی وفات سے جنوبی ہندوستا ن میں بہت بڑا خلاپیدا ہوگیا ۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر نکہت نے بحسن وخوبی انجام دی ۔
تعزیتی نشست میں مولانا عتیق احمد بستوی ،صفی اختر ،بسمل عارفی ،مولانا خالدحسین ندوی ،حامد خان،نوراللہ ،اقبال حسن ،عطا حسین سمیت متعدد لوگوں نے شرکت کی اور صدر اجلاس مولانا عبد اللہ مغیثی کی دعاء پر تعزیتی نشست اختتام پذیر ہوئی ۔
پی آر او
آل انڈیا ملی کونسل