ڈاکٹر محمد منظور عالم
بنیادی سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کیونکر جنم لیتی ہے، اس کی گہرائی میں جانا چاہیے۔ دہشت گردی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انصاف دم توڑدے، انصاف کے سارے راستے مسدود کردیے جائیں۔ انصاف حاصل کرنے کے جتنے بھی قوانین ہیں وہ جوتوں سے روند دیئے جائیں۔ اسی بنا پر انصاف کو قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے، انصاف ایک ایسا مثبت قدم ہے جو تمام مذاہب خواہ وہ آفاقی مذہب ہو یا انسان کی اپنی سمجھ بوجھ کے پس منظر میں قائم ہواہو، سبھی اس بات پر زور ڈالتے ہیں کہ انصاف قائم کرو، خواہ وہ اپنے خلاف ہو اپنے والدین یا اپنے عزیز واقارب کے خلاف جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ انصاف تک پہونچنے کے لیے جتنے بھی راستے ہیں خواہ وہ پولیس، جانچ ایجنسیوں کی شکل میں ہوں، پڑوس کے رہنے والے ہوں، وہ خود بھی اس پر عمل کریں اور اس کے لیے ماحول سازگار کریں۔ جب اس کے خلاف عمل شروع ہوتا ہے جس میں نسلی برتری، نسلی تفریق، اونچ نیچ، اعلیٰ اور ادنیٰ، رنگ ونسل، زبان، تہذیب وثقافت اور تمدن کی برتری اور اقتصادی استحصال کے ذریعہ اپنی قوت اور برتری کا اظہار ہو اس کے نتیجہ میں انصاف کے سارے راستے مسدود ہوتے ہیں اور سماج کے کمزور طبقات بالخصوص خواتین اور بچے اس استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔
دہشت گردی کے پروان چڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کو بنانے والے خالق کائنات نے جو سبھی جان رکھنے والوں کا پالن ہار ہے۔ اس نے انسانوں کو برابری کا حق دیا ہے، تمام انسانوں نے ایک ہی ماں باپ سے جنم لیا اور پوری دنیا میں پھیل گئے اور اس کی آبادی دنیا میں تقریباً 8بلین ہے۔ برابری کی بنیاد پر اللہ نے انسانوں کو ایک کنبہ قرار دیا ہے اس کے برعکس رنگ ونسل، علاقے اورمذاہب کے ماننے والوں کے اختلاف کی بنیاد پر ایسے ہزاروں من گھڑت طریقے بناتے گئے جس سے برابری کا درجہ ختم کردیاجاتا ہے بعض دفعہ تو حیوانوں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔
اس کا ایک پہلو بھائی چارگی کا ہے۔ بھائی چارگی اسی بنیاد پر قائم ہوتی ہے کہ ایک طرف انصاف کا بول بال ہو، قانون کا راج ہو، انصاف کے راستے نظر آرہے ہوں، قانون کے سامنے کوئی چھوٹا بڑا نہ ہو، ہر انسان معصوم ہے، برابر ہے، اس وقت تک جب تک کہ اس کا قصور ثابت نہیں ہوتا۔ اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو اسے بھائی چارگی کا حصہ نہیں مل سکتا اور انصاف بھائی چارگی کی گاڑی کے پہیے کی طرح ساتھ نہیں چل رہا ہے تو کمزور طبقہ ’سب کو اپنا ’’بھائی‘‘ سمجھتا رہے اور جو مضبوط ہے، انصاف کے خلاف ہے اسے ’’چارہ‘‘ سمجھتا رہے‘۔ یہ وہ بنیادی ستون ہیں جن کی بنیاد پر پوری دنیا سے دہشت گردی مٹائی جاسکتی ہے۔ اگر ہم بین الاقوامی اور اپنے ملک کا جائزہ لیں اور آج کے دور میں جو تبدیلیاں ہورہی ہیں، بلا تکلف کہا جاسکتا ہے کہ مکمل سفید جھوٹ کی بنیاد پر قتل وغارت گری کا بازار گرم کردے خواہ یہ نعرہ دیا جائے کہ عوامی تباہی کے ہتھیاروں کے خلاف جنگ کی جائے، خواہ پٹرول کی منڈی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے، خواہ اسرائیل کو قائم رکھنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے جائیں اور انھیں مکمل آزادی دی جائے کہ دہشت گردی کے نام پر جو خود دہشت گرد ہے فلسطین اور غزہ پٹی کو تباہ وبرباد کردے۔ اقوام متحدہ یا تو محض خاموش تماشائی بنارہے یا اپنی بے بسی کا اظہار کرکے خاموش ہوجائے، ایسی صورتحال میں ہمارے ملک کے حکمراں کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ہم کس طرح کا ماڈل بننا چاہتے ہیں۔ وہ ماڈل جو امریکا اور اسرائیل کے ذریعہ اپنا تسلط قائم کرنے کا ہے یا ’باپو‘ کا سبق جہاں امن وآشتی، بھائی چارگی، آپسی محبت، اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور مختلف بنیادی حقوق فراہم کرکے ایک ایسا متبادل فراہم کریں کہ دنیا میں امن وآشتی اور ترقی کا ماڈل قائم ہوسکے، جہاں ہر ایک انسان کی ضروریات کی تکمیل ہو، لالچ کی تکمیل نہیں ہوسکتی، تسلط قائم کرنے کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔ ہتھیاروں کی دوڑ میں ہم شامل تو ضرور ہوسکتے ہیں مگر انسانیت کی بقاء اس سے قائم نہیں ہوسکتی۔ ہم کمزور ہرگز نہیں رہنا چاہتے مگر دنیا کے کمزور ملکوں کا مداوا نہیں بن سکتے۔ نتیجہ کے طور پر اس بات کا اندیشہ ہمیشہ رہے گا کہ شدت پسندی کہیں سے بھی کسی کے ذریعہ کہیں ا پنی شکایت کے مداوا کے لیے کہیں اپنی غلط فہمی کے دفاع کے لیے پیدا ہوتی ہے اور کمزور لوگ ہی ’نشیلی اشیاء کی سپلائی‘، ’ہتھیاروں کی اسمگلنگ‘ اور ’منی لاڈرنگ‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بدلتے گلوبل تناظر میں میں دوسروں کے ماڈل کو اختیار کرنے کے بجائے ہمارا ماڈل جو امن وآشتی کے پیغام، ترقی وخوشحالی کو بڑھانے اور اس میں سب کو شریک کرنے کے جذبہ کو بیدار کیا جائے تو شاید اس دنیا کے لیے ہم ایک اچھے ماڈل کی شکل میں ابھر سکتے ہیں۔
اس پس منظر میں جب ہم اپنے ملک کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ محبت کی جگہ نفرت، انصاف کی جگہ ناانصافی، امن وآشتی کی جگہ زہر افشانی، بھائی چارگی کی جگہ دشمنی، سب کو ساتھ لیکر چلنے کے بجائے کچھ لوگوں کو اقتدار میں جگہ دینا، کمزور کو مزید کمزور کرنا، سرمایہ دار دنیا کی منڈی بننا، عام انسانوں کی ضروریات کا خیال رکھنے کے بجائے کمزور کو مٹانے اور غریبی کو ختم کرنے کے بجائے غریب کو مزید کمزور اور لاچار کیا جائے اور اس میں کمزور طبقات بالعموم اور مسلمانوں بالخصوص ودیگر اقلیتوں کو ہر ایک میدان میں انصاف سے محروم رکھا جارہا ہے اور برابری سے دور کیا جارہا ہے اور بھائی چارگی تو بالکل عنقا ہوتی چلی جارہی ہے اور ایسی تنظیمیں جو انتہا پسندانہ خیالات رکھتی ہیں انھیں ہر طرح کی چھوٹ اور آزادی ملی ہوئی ہے اور اقلیتوں و دیگر کمزور طبقات کی تنظیموں پر الزام لگا کر پولیس کی بربریت ودیگر آفیسران کی نا انصافی پر عملدر آمد تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ کھلے انداز میں نہ صرف منافرت نظر آرہی ہے بلکہ انصاف کے ترازو میں جو معصوم ہیں وہ مجرم قرار دیے جارہے ہیں اور جو مجرم ہیں وہ آزاد ہوتے چلے جار ہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ’’امن و آشتی‘‘ کے ماڈل بننے کی ہمت رکھتے ہیں؟ کیا ہم ’مین آف ایکشن‘ (Man of Action) خطاب حاصل کرنے کے بعد ان برائیوں، خرابیوں، ناانصافیوں، نابرابری اور بھائی چارگی کا جو عدم اعتماد پیداہورہا ہے اس کو دور کرنے کے لیے ’ایکشن‘ کے لیے تیار ہیں۔ کیا ہم دستور کی عظمت کو قانون کی بالا دستی کو انصاف کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو کسی امتیاز کے بغیر کھڑے ہونے کی ہمت کرتے ہیں۔ کیا ہم دنیا کی رہنمائی جو اوپر کی بنیادوں پر قائم ہوسکتی ہے، کرنے کو تیار ہیں۔ کیا ہم مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو احترام دے سکتے ہیں۔ کیا ہم انسانیت کو فروغ دینے اور اس کی عزت ووقار کو بڑھانے کے لیے عملی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ان سوالوں پر غور کرنا چاہیے بلکہ اس کا مثبت انداز میں جواب دینا چاہیے۔جب مثبت انداز سے جواب آئے تو ہم ہندستانی فخر سے دنیا والوں کو کہہ سکتے ہیں کہ تم نے یورپ اور امریکا کے اسرائیل ماڈل کو دیکھا، آؤ اب ہندستان کی تہذیب وتمدن اور اس کے دستوری وقار کے ماڈل کو دیکھو۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)