✍:- تابش سحر
بابرکت سرزمین کیوں؟ (قسط ۱)
مصر، اردن، شام اور لبنان کے درمیان واقع خطّۂِ ارضی کو "فلسطین" کہتے ہیں جس کا شمال مغربی علاقہ بحیرہ روم سے جاملتا ہے۔ یہ کوئی عام علاقہ نہیں بلکہ مقدّس سرزمینِ شام کا نہایت ہی اہم حصّہ ہے جس کے بابرکت ہونے کی شہادت قرآن مجید نے دی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے صنم کدۂِ عراق کے سارے بت پاش پاش کردیے تو آپ کے لیے نارِ نمرود بھڑکائی گئی جو اللہ کے فضل و کرم سے سراپا سلامتی بن گئی تھی۔ قوم کی ہٹ دھرمی، سرکشی اور صنم پرستی سے بیزار ہوکر حکمِ خداوندی کی فرمانبرداری میں بالآخر آپؑ نے عراق کو الوداع کہا، ہجرت کا فریضہ انجام دیا اور اس مقدّس سرزمین کو اپنا وطن بنایا جسے ہم فلسطین کے نام سے جانتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتے تو فلسطین کی مٹّی' خلیلِ خدا کی جبینِ نیاز کو چومتی اور اپنی قسمت پر رشک کرتی۔
حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں میں نے حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ روئے زمین کی سب سے پہلی مسجد کونسی ہے؟ آپؐ نے فرمایا "مسجدِحرام"
میں نے کہا "اس کے بعد؟'
آپؐ نے فرمایا "مسجدِ اقصٰی"
میں نے دریافت کیا کہ دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا وقفہ ہے؟
آپؐ نے ارشاد فرمایا "چالیس سال"
اس مکالمے سے گمان ہوتا ہے کہ مسجدِ اقصٰی کے پہلے معمار حضرت ابراہیمؑ ہے۔
حضرت لوط علیہ السلام' اپنی قوم کو بےحیائیوں اور برائیوں سے برابر روکتے رہے مگر قوم نہ مانی سو ان پر پتھروں کی برسات ہوی اور وہ اس طور پر مبتلائے عذاب ہوے کہ عبرت کا نشان بن کر رہ گئے، پراسرار بحرِ مُردار آج بھی اس ہیبت ناک حادثے کے صدمے سے نہیں نکل سکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (حضرت لوطؑ) کو پیروکاروں سمیت نجات عطا کی اور انہیں دیارِ بابرکت میں اقامت کی سعادت بخشی۔
یوسفِ گم گشتہؑ کا وطن بھی فلسطین ہی تو ہے یعنی گیارہ ستارے اور آفتاب و ماہتاب کی سجدہ گزاری کا خواب اسی سرزمین پر دیکھا گیا، کنواں، غلام، بھیڑیا اور قمیص سب فلسطینی ہیں پھر صبرِ جمیل کی عملی تفسیر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسی سرزمین پر پیش کی۔ حضرت یوسفؑ مصر کے تختِ شاہی پر جلوہ افروز ہوے تو کنعان کے قحط زدہ ستارے دربارِ یوسفی میں حاضر ہوے، فیضانِ یوسفی سے مستفید ہوے اور عفو و درگزر کا پروانہ حاصل کیا۔ یعقوبؑ اپنے اہل خانہ سمت مصر تشریف لائے اور یوں بنی اسرائیل مصر کے ہوکر رہ گئے مگر جب یوسفؑ کے بعد فراعنۂِ مصر نے فرزندانِ اسرائیل کو تختۂِ مشق بنالیا، ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے تو اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث کیا، آپؑ خدا کی نشانیاں لے کر دربارِ شاہی میں پہنچے، تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دیا، ساحرانِ فرعون کو شکست دی، منطقی دلائل پیش کیے لیکن فرعون کی قسمت میں ہدایت نہ تھی سو آپؑ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اپنی قوم کو لے کر نکلے، فرعون بھی لاؤلشکر سمیت پیچھا کرنے لگا، بحرِ قلزم کے کنارے آپؑ نے زمین پر عصا دے مارا تو درمیان میں راہ نکل آئی بنی اسرائیل پار نکل گئے اور فرعون اپنی فوج سمیت غرقاب ہوگیا۔
فرعون سے نجات کے بعد بنی اسرائیل کو جس ارضِ مقدّسہ میں داخلے کا حکم دیا گیا اس کا ایک حصّہ فلسطین بھی تھا، جہاں قومِ جبّارین کی حکومت تھی، اپنی کج روی کے باعث بنی اسرائیل وادیِ تیہہ میں بھٹکتے رہے اور جب سزا کی مدّت پوری ہوی اور وہ جہاد پر آمادہ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ارضِ مقدّسہ کا وارث بنادیا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے باطل کے آلۂِ کار جالوت کو قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سر پر بادشاہت کا تاج سجایا، علم و حکمت کے زیور سے آراستہ کیا، ان کی سلطنت میں فلسطین اہم مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے والد کے بعد بادشاہ ہوے تو انہوں نے فلسطین کو منظّم شہر میں تبدیل کردیا۔
حضرت زکریاّ و یحیی علیھما السلام، پاکباز خاتون مریم اور مضطرب دلوں کے مسیحا ابنِ مریم علیہ السلام کا تعلّق بھی ارضِ مقدّسہ سے ہے۔ یہ چند مشہور نبیوں کے نام ہیں ان کے علاوہ سینکڑوں نبیوں کا تعلّق اس سرزمین سے رہا ہے، نبیوں کی کثرت سے آمد رحمت و برکت کا خزینہ ہے، ہدایت کا سرچشمہ ہے اور اخروی نجات و کامیابی کا ذریعہ ہے بایں وجہ اسے بابرکت سرزمین کہا گیا، اس کے علاوہ سرسبزوشادابی، زمین کی زرخیزی اور خوشگوار موسم دنیوی برکت کی نشانیاں ہیں۔ سفرِ معراج میں خانۂِ کعبہ سے مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے جانے میں یہ حکمت پوشیدہ نظر آتی ہے کہ اس سرزمینِ انبیاء کی اہمیت اور عظمت کا احساس دلایا جائے۔
No comments:
Post a Comment