مودی کی تقریر: نعرے بلند، مسائل خاموش
تحریر: جمیل احمد ملنسار
پارلیمنٹ میں نریندر مودی کا خطاب اعداد و شمار سے زیادہ علامتی زبان کا مظاہرہ تھا — نعرے گونجتے رہے مگر ملک کے حقیقی مسائل کہیں سنائی نہیں دیے۔
جب وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں تقریر کی، تو وہ بیان کسی پالیسی ایجنڈے سے زیادہ ایک انتخابی مہم کی آواز لگا۔ اگر ان کے الفاظ کو گنا جائے تو منظر بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
مودی نے "وندے ماترم" 121 بار، "بھارت" 35 بار، "انگریز" 34 بار، "بنگال" 17 بار، "کانگریس" 99 بار، "نہرو" 31 بار، "مسلم لیگ" 5 بار اور "جناح" 3 بار کہا۔ یہ تکرار ایک منظم سیاسی کہانی سناتی ہے — تاریخ، دشمن اور وطن کی فضا میں لپٹی ہوئی قوم پرستی۔
لیکن جو بات حیران کن ہے وہ ان رکھے گئے الفاظ سے زیادہ چھوٹے گئے موضوعات ہیں۔ نہ آلودگی کا ذکر، جو دہلی اور شمالی ہند کو زہر آلود کر رہی ہے؛ نہ دہلی بم دھماکے پر کوئی حوالہ؛ نہ انڈیگو ایئرلائن کے واقعے پر کوئی ردِ عمل۔ قبائلی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی اور زمینوں کے قبضے کے خلاف جو مزاحمت ابھر رہی ہے، اس پر ایک جملہ تک نہیں۔ حتیٰ کہ روپیہ کی گرتی قدر، جو عام شہری کی روزمرہ زندگی کو براہِ راست متاثر کر رہی ہے، اس پر بھی مکمل خاموشی۔
یہ خاموشی محض غفلت نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی ہے۔ مودی کی تقاریر اب پالیسی کم اور تاثر زیادہ پیدا کرتی ہیں۔ جذباتی نعروں، قومی تاریخ اور علامتوں کے ذریعے وہ سامعین کو جوڑے رکھتے ہیں، مگر اس بیانیے میں روزمرہ کے چبھتے حقائق کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
"بنگال" کا سترہ بار تکرار صاف بتاتا ہے کہ اگلی سیاسی منزل کہاں طے ہو رہی ہے۔ بہار اب ماضی کا حوالہ ہے؛ انتخابی نگاہیں مشرق کی طرف مڑ چکی ہیں۔ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے ہی اگلے الیکشن کی رَسید پڑھی جا چکی ہے۔
یہ رجحان کوئی نیا نہیں۔ سن 2014 کے بعد سے مودی کے بیانات میں یہی توازن نظر آتا ہے — تاریخی فخر کے سائے میں موجودہ ناکامیوں پر چپ سادھے رکھنا۔ مگر اس بار یہ چپ واضح، دیرپا اور معنی خیز ہے۔ جب حکومت اپنے کارناموں کے بجائے نعروں کو ہی اپنی کامیابی سمجھنے لگے، تو خاموشی خود ایک خبر بن جاتی ہے۔
مودی کی تقریر کے الفاظ گنے جا سکتے ہیں، مگر ان کی چُپ کی گہرائی ناپنا ممکن نہیں۔ یہ وہ چُپ ہے جو آج ہندوستان کے سیاسی مزاج اور جمہوری مکالمے کی حقیقت بیان کرتی ہے۔

Comments
Post a Comment