Wednesday, 10 December 2025

وطن کی نغمۂ محبت — ’’وندے ماترم‘‘ کا نیا تناظر








وطن کی نغمۂ محبت — ’’وندے ماترم‘‘ کا نیا تناظر
تحریر: جمیل احمد ملنسار


ایک نغمہ، ایک ملت

ہندوستان کی تاریخ میں چند نغمے ایسے ہیں جو صرف بول نہیں بلکہ قوم کی روح کی دھڑکن ہیں۔ ’’وندے ماترم‘‘ انہی میں سے ایک ہے۔ بنکم چندر چٹرجی نے جب اسے تخلیق کیا تو یہ صرف شاعری نہیں تھی بلکہ ایک غلام قوم کے دل سے اٹھنے والی آزادی کی صدا تھی۔ اس نے شمال سے جنوب تک ایک وجدانی وابستگی پیدا کی، ہندوستان کے باسیوں کو اپنی سرزمین سے ایک نئے شعور کے ساتھ محبت کرنا سکھایا۔​

تاہم اس نغمے کی معنوی تقدیر ہر دور میں یکساں نہ رہی۔ اس کے ابتدائی اشعار میں جہاں وطن کی محبت اور وفاداری کا پرخلوص اظہار تھا، بعد کے حصوں میں مخصوص علامتی تشبیہیں آئیں جنہیں بعض اہلِ ایمان نے اپنے عقائد سے متصادم پایا۔ یہی وہ موڑ تھا جہاں ’’محبتِ وطن‘‘ اور ’’عقیدے کی پاکیزگی‘‘ کے درمیان ایک باریک اور نازک خطِ امتیاز سامنے آیا۔
اعتراضات کی تاریخی جہت

یہ نزاع دراصل مذہب نہیں بلکہ تعبیر کا مسئلہ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی اور دیگر قومی رہنماؤں نے وطن سے محبت کو کبھی ایمان کے خلاف نہیں کہا، البتہ انہوں نے یہ ضرور واضح کیا کہ عقیدہ اور عبادت کا دائرہ الگ ہے۔ اسی احساس کے تحت 1937ء میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے یہ طے کیا کہ سرکاری تقریبات میں صرف پہلے دو بند استعمال ہوں، جو حبِ وطن کے جذبے سے لبریز ہیں مگر کسی مذہبی رنگ سے دور۔

پنڈت جواہر لال نہرو اور سبھاش چندر بوس نے بھی اسی قرار کو تسلیم کیا۔ اس فیصلے نے دراصل ہندوستانی قوم پرستی کو ایک نیا مفہوم دیا — وہ مفہوم جو عدل، مساوات اور ہر شہری کے احترام پر مبنی تھا۔
آج کی بحث اور پریانکا گاندھی کا خطاب

وقت نے کروٹ لی مگر ’’وندے ماترم‘‘ کی بحث اپنی فکری نزاکت کے ساتھ باقی رہی۔ حال ہی میں محترمہ پریانکا گاندھی واڈرا نے پارلیمنٹ میں جو موقف پیش کیا، وہ دراصل اسی روادار اور ہم آہنگ روایت کی تجدید تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’وندے ماترم‘‘ ہر ہندوستانی کے دل کی آواز ہے، مگر اسے سیاسی ہتھیار بنانا اس کے تقدس کو مجروح کرتا ہے۔​

یہ پیغام دراصل ایک عمیق حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ قوموں کی وحدت نعروں سے نہیں، نیت اور عمل سے بنتی ہے۔ محبتِ وطن اگر تقسیم پیدا کرے تو وہ عبادت نہیں، سیاست بن جاتی ہے۔ محترمہ پریانکا گاندھی نے اسی جذبے کے ساتھ یہ صدا بلند کی کہ وطن کی تعظیم کو اختلاف کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، بلکہ اسے قومی اتحاد کی بنیاد مانا جائے۔
جنوب کی رہوں پہ خاموش چراغ — منظور رضوی کا مکتوب

لیکن کہانی کا ایک خاموش باب ابھی باقی تھا۔ ڈاکٹر راہی فدائی کی کتاب ’’اوراقِ جاویداں‘‘ (1994) میں ایک قیمتی خط محفوظ ہے، جو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے لیٹرہیڈ پر منظور رضوی نے حکیم نورالحق جاوید کے نام لکھا۔ یہ اس زمانے کی دستاویز ہے جب آزادی کی تحریک اپنے عروج پر تھی، اور مسلمانوں کے لیے قومی سیاست میں شمولیت کا سوال اہم تھا۔​

منظور رضوی اپنے مکتوب میں مخاطب کو یاد دلاتے ہیں کہ کانگریس کا پیغام مذہب نہیں بلکہ انسان اور وطن کی آزادی کا پیغام ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قوم کی خدمت اور انصاف کا قیام ایمان کے عین مطابق ہے، بشرطیکہ مقصد عدل اور مساوات ہو۔ ان کے الفاظ میں وہی رچاؤ اور فکری وقار نمایاں ہے جو مولانا آزاد کے ’’تذکرہ‘‘ اور ’’غبارِ خاطر‘‘ میں دکھائی دیتا ہے — یعنی ایمان اور انسانیت کی ہم آہنگی۔

قدیم سے جدید تک تسلسل

منظور رضوی نے جو پیغام ایک چھوٹے قصبے سے دیا تھا، آج وہی صدا پریانکا گاندھی کے زبان سے ایک نئے دور میں گونجتی ہے۔ دونوں نے ایک ہی سچائی کی طرف توجہ دلائی — کہ قومی علامتوں کو تفریق نہیں بلکہ تالیفِ دلوں کا وسیلہ بننا چاہیے۔ جس طرح رضوی نے جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں کو اعتماد دیا کہ قومی نعروں میں کسی مذہبی تعصب کی جھلک نہیں، اسی طرح آج پریانکا یہ باور کرا رہی ہیں کہ ’’وندے ماترم‘‘ سب کا ہے۔

یہ خط یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہندوستانی قوم پرستی کی بنیادیں صرف دہلی یا کلکتہ میں نہیں بلکہ میسور، مدراس اور دکن کے قصبوں میں بھی استوار ہوئیں۔ انہی علاقوں کے باکردار، سنجیدہ اور تعلیم یافتہ مسلمانوں نے آزادی کی تحریک میں ایسی فکری گہرائی پیدا کی جس نے ملک کی اساس کو مضبوط کیا۔
جنوب کی روشنی میں سیکولر ہندوستان

اگر آج ’’وندے ماترم‘‘ دوبارہ اتحاد اور ہم آہنگی کی علامت بنتا ہے، تو یہ انہی گمنام کرداروں کی قربانیوں کا ثمر ہے جنہوں نے مذہب اور وطن کی محبت کو ایک دوسرے کا معاون بنایا، متصادم نہیں۔ منظور رضوی اور حکیم نورالحق جاوید جیسے لوگوں نے بتایا کہ جہاں انسانیت ہوتی ہے، وہاں ایمان کی خوشبو بھی باقی رہتی ہے۔


آج جب ملک اپنی سماجی تشکیل کے نئے مرحلے میں ہے، تو ایسے خطوط اور مکالمے ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہندوستان کی اصل روح — اس کی ’’آتما‘‘ — کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت ہے۔ دکن کی فضاؤں سے اب بھی ایک مدھم مگر پُرخلوص آواز اٹھتی ہے:
محبتِ وطن ایمان کی تکمیل ہے، اور ایمان کا حسن انسانیت سے ہے۔

No comments:

Post a Comment

وطن کی نغمۂ محبت — ’’وندے ماترم‘‘ کا نیا تناظر

وطن کی نغمۂ محبت — ’’وندے ماترم‘‘ کا نیا تناظر تحریر: جمیل احمد ملنسار ایک نغمہ، ایک ملت ہندوستان کی تاریخ میں چند نغمے ایسے ہیں جو صرف بو...