Aravalli’s Wounds and Mewat’s Muslims: A Struggle for Survival and Ecology
اراؤلی کے زخم اور میوات کا مسلمان: بقا اور ماحولیات کی جنگ
DECEMBER 26, 2025
اراؤلی کے زخم، میوات کا مسلمان: ماحولیات سے بقا تک کی جنگ
از : جمیل احمد ملنسار
موبائل: 9845498354
صبحِ صادق کے دھند میں اراؤلی کے ٹوٹے پھوٹے پہاڑ کسی بوڑھے گواہ کی طرح خاموش کھڑے ہیں۔ ادھر ٹرکوں کی قطاریں، ادھر دھماکوں کی بازگشت، اوپر دھول کی موٹی چادر، اور نیچے پسینے میں شرابور مزدوروں کے چہرے۔ یہ مناظر بتاتے ہیں کہ پہاڑ کے جسم پر چلنے والی ہر درانتی اور ہر ڈرل محض پتھر نہیں کاٹتی، شہر کامستقبل بھی چھلنی کر دیتی ہے۔ یہی اراؤلی کل تک بارش کو سنبھالنے والا، ہوا کو تھامنے والا، اور ریگستان کے زہر کو دہلی و ہریانہ سے روکنے والا حصار تھا۔ آج اس کے سینے پر مافیا کی بولی، سیاست کی مصلحت، اور زمین کی لالچ کا راج ہے، اور پہاڑ گویا خاموش زبان میں کہہ رہا ہے: “میں جھوٹ نہیں بولتا، تم خود اپنے جھوٹ کے قیدی ہو۔”
اراؤلی برِّصغیر کے قدیم ترین پہاڑی سلسلوں میں شمار ہوتا ہے؛ صدیوں سے یہ راجستھان، ہریانہ، دہلی اور آس پاس کے خطوں کے موسم، پانی اور مٹی کا محافظ رہا ہے۔ یہ پہاڑ نہ صرف بارش کے پانی کو زمین میں جذب کر کے زیرِ زمین ذخائر کو بھرنے کا ذریعہ رہے، بلکہ ریتیلے طوفانوں کو روک کر دہلی–NCR کے شہریوں کے پھیپھڑوں کو بھی سہارا دیتے رہے۔
آج جب شہر پھیلتے پھیلتے پہاڑوں کے دامن تک آ پہنچا، تو اراؤلی ایک قدرتی ڈھال سے زیادہ “پرائم رئیل اسٹیٹ” بن کر فائلوں میں زندہ ہے اور زمین پر زخمی۔ کاغذوں میں جنگل، قدرتی کوریڈور اور واٹر ریچارج زون کے نام درج ہیں، مگر زمینی حقیقت میں سرنگیں، کھڈے، فارم ہاؤس اور کنکریٹ کے قلعے ہیں.اراؤلی کے تحفظ کے لیے برسوں سے عدالتوں میں درخواستیں، کمیٹیاں اور رپورٹیں بنتی رہی ہیں؛ کہیں غیر قانونی مائننگ پر پابندی کی ہدایت، کہیں جنگلاتی اراضی بچانے کا حکم، کہیں گرین بیلٹ کی حفاظت کا دعویٰ۔ کاغذی طور پر تو گویا پہاڑ کے ہر زخم پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔
لیکن زمینی سطح پر “ترقی” کے نام پر قانون کو موڑنے کی مکمل مشق جاری ہے۔ ایک طرف عدالت کہتی ہے کہ پہاڑ کاٹنا جرم ہے، دوسری طرف “ریگولرائزیشن”، “کمپوزٹ ڈویلپمنٹ” اور “نئی پالیسی” کے نام پر انہی زخموں کو قانونی شکل دے دی جاتی ہے۔ یوں مائننگ مافیا، بلڈر لابی اور سیاسی سرپرستی کا گٹھ جوڑ پہاڑ کی ہڈیوں کو سرکاری ٹھپے کے ساتھ بیچتا ہے، اور قانون عوام کے سامنے صرف پریس ریلیز اور تقریر کی حد تک موجود رہتا ہے۔
اراؤلی کی پوری پٹی میں مسلمان، دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کی بستیاں خاصی تعداد میں موجود ہیں، خصوصاً میوات اور اس کے نواحی علاقوں میں۔ جب پہاڑ زخمی ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان ہی بستیوں کے پانی کے کنوئیں سوکھتے ہیں، ان ہی کے بچے دھول بھری ہوا میں سانس لیتے ہیں، اور انہی کے گھروں کے اوپر سے ٹرکوں کا شور گزرتا ہے۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں کبھی “غیر قانونی بستی”، کبھی “گؤتسکری”، کبھی “زمین پر قبضہ” اور کبھی “سیکیورٹی کا مسئلہ” بنا کر مسلمانوں کو مشکوک شہری کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک طرف بڑے پروجیکٹس کے لیے پہاڑ کاٹنا “نیشنل ڈویلپمنٹ” کہلاتا ہے، دوسری طرف غریب مسلمانوں کی جھونپڑیاں اور چھوٹے مکانات انہدام کی زد میں آ کر “ریاستی عمل” بن جاتے ہیں۔ یوں اراؤلی کی تباہی صرف ماحولیات کا مسئلہ نہیں رہتی، وہ ایک سیکورٹی ڈسکورس اور فرقہ وارانہ سیاست کی چادر اوڑھ لیتی ہے، جس میں مسلم بستیوں کا وجود خود “مسئلہ” بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پہاڑ کاٹنے والے مافیا کے نام پر زبان نہیں کھلتی، تو کیا مسلمان کی داڑھی، لڑکی کا حجاب اور بستی کا نام ہی ریاستی طاقت کا اصل ہدف بن جاتا ہے؟
اس تاریک منظرنامے میں بھی اراؤلی کا پہاڑ مکمل طور پر ہار نہیں مانا۔ کئی دیہات میں مقامی نوجوان پانی کے تالاب صاف کرنے، شجرکاری، غیر قانونی مائننگ کی نشاندہی اور سوشل میڈیا پر ویڈیو ڈاکیومنٹیشن کے ذریعے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کچھ وکلا اور ماحولیاتی کارکن عدالتی محاذ پر مسلسل پیروی کرتے ہیں، تاکہ پہاڑ کے بچ جانے والی سانسوں کو قانونی تحفظ میسر رہے۔
مسلم سماج کے لیے بھی یہاں ایک نئی حکمتِ عملی کی گنجائش ہے: مساجد اور مدارس میں صرف فقہی مسائل کے ساتھ ساتھ ماحولیات، پانی، درخت اور اراؤلی جیسے مشترکہ اثاثوں پر شعور بیدار کرنے کی کوشش ہو۔ جمعہ کے خطبوں میں “حقِ الجار” کے ساتھ “حقِ الأرض” یعنی زمین کے حق کا ذکر ہو، تاکہ قوم اپنی بقا کو پہاڑ کی بقا کے ساتھ جوڑ کر دیکھ سکے۔
آخر میں پہاڑ پھر بھی وہی سچ کہتے ہیں جو ہمارے شہروں کی گاڑیاں، ہمارے بلڈر، ہمارے منشور اور ہمارے ٹی وی اسٹوڈیو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں: “میں جھوٹ نہیں بولتا؛ اگر تم دھول میں اپنا چہرہ پہچان نہیں پا رہے، تو قصور میرا نہیں، تمہاری اپنی تباہ کاریوں کا ہے۔”



Comments
Post a Comment