جاوید اختر بمقابلہ مفتی شمائل ندوی- منطق اور بیان بازی کا تصادم
جب منطق کی روشنی میں الفاظ کا جادو ٹوٹتا ہے، تو سچائی کی آواز بلند ہوتی ہے — یہاں جاوید اختر اور مفتی شمائل ندوی کی وہ بحث تھی جس نے زمانے کے بدلتے دھارے کو عیاں کر دیا۔
از : جمیل احمد ملنسار
موبائل9845498354
برسوں تک جاوید اختر نے اپنی خوش گفتاری کی لہروں میں سامعین کو بہایا۔ ان کی تقریریں ایسی تھیں جیسے کسی ماہر موسیقار نے ستار کے تاروں پر نرم انگلیاں پھیری ہوں — سب کچھ سریلا، سب کچھ دل نشین، مگر شاید کہیں گہرائی میں وہ سچائی نہ تھی جو کسی بھی فکر کی روح ہوتی ہے ۔
وہ الفاظ کے جادوگر تھے، بلاشبہ۔ مگر جادو کی عمر محدود ہوتی ہے، خاص طور پر اس دور میں جب سامعین محض تالیاں بجانے والے نہیں، بلکہ سوال کرنے والے، پرکھنے والے، اور دلیل مانگنے والے بن گئے ہیں۔
اب وہ زمانہ رخصت ہو رہا ہے جب کوئی خطیب محض اپنی زبان کی رنگینی سے سچائی کا بھرم قائم رکھ سکتا تھا۔ آج کا سامع، آج کا قاری، اور آج کا مخاطب — سب کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ وہ حقائق کی تہوں تک جانے کی ضد رکھتے ہیں۔
جاوید اختر کے سامنے اب وہ لوگ موجود ہیں جو صرف سننے نہیں آئے — وہ پوچھنے، جانچنے اور پرکھنے آئے ہیں۔ وہ دلیل کے ہتھیار سے لیس ہیں، تحقیق اور استدلال کی روشنی میں اپنی بات رکھتے ہیں۔ اور یہیں سے وہ دھوپ شروع ہوتی ہے جس میں الفاظ کا ملمع اترنے لگتا ہے، اور خطابت کی چمک دمک بے رنگ پڑ جاتی ہے ۔
میں نے پورا پروگرام ابتداء سے انتہا تک دیکھا ۔ ہر لمحہ، ہر جملہ، ہر استدلال ایک گہری فکری جنگ کی کہانی بیان کرتا تھا — ایسی جنگ جس میں نہ تیر تھے، نہ تلوار، نہ کوئی ہتھیار۔ صرف علم تھا، منطق تھی، اور حقیقت کی روشنی تھی۔
مفتی شمائل ندوی نے جاوید اختر کے ہر سوال کا جواب اس انداز میں دیا کہ گویا علم کی دھار سے باطل کے ہر دعوے کو چیر دیا گیا ہو ۔ ان کے الفاظ سادہ تھے، مگر گہرے۔ ان کی آواز میں غرور نہیں، بلکہ یقین تھا — وہ یقین جو سچائی سے جنم لیتا ہے۔
یہ بحث بالکل ویسے ہی ہوئی جیسا کہ ہر باخبر شخص کی توقع تھی۔ جاوید اختر اپنے بنیادی دعوؤں کو منطقی استدلال اور پختہ عقل سے ثابت نہ کر سکے ۔ جب بھی ان کی موقف عقلی بنیادوں پر کمزور پڑتی نظر آئی، وہ گفتگو کو جذبات کی طرف موڑ دیتے — ایسی چالاکی جس سے سچائی کی روشنی مزید واضح ہو گئی۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ "Does God Exist" کے موضوع پر بات کرتے ہوئے، مفتی صاحب نے نہ کوئی قرآنی آیت نقل کی، نہ کوئی حدیث پیش کی، نہ کوئی دینی کتاب کا حوالہ دیا۔ انہوں نے صرف منطق سے بات کی، فطرت سے، عقل سے، اور حقیقت سے۔ اور شاید یہی اصل فتح تھی
کیونکہ جب آپ کسی کو اس کی اپنی زبان میں، اس کی اپنی منطق میں، اور اس کے اپنے معیار پر قائل کر دیں — تو یہ صرف بحث نہیں، بلکہ حق کی فتح ہوتی ہے۔
یہ بحث دراصل محض جاوید اختر اور مفتی شمائل ندوی کے درمیان مکالمہ نہیں تھی، بلکہ دو رویّوں کی ٹکر تھی — ایک طرف وہ بیانیہ جو تالیاں تو بہت سمیٹتا ہے مگر سوالوں کے سامنے کمزور پڑ جاتا ہے، اور دوسری طرف وہ آواز جو دلیل، تحقیق اور فکری دیانت کے سہارے قائم رہتی ہے ۔ اس مکالمے نے یہ واضح کر دیا کہ اب زمانہ بدل چکا ہے؛ سامع خاموش تماشائی نہیں رہا، وہ جاننا چاہتا ہے کہ بات کے پیچھے بنیاد کیا ہے، اور دلیل کہاں کھڑی ہے۔
ایسے ماحول میں مفتی شمائل ندوی جیسے اہلِ علم محض کسی ایک مذہبی طبقے کی نمائندگی نہیں کرتے، بلکہ وہ اس وسیع تر ضرورت کے ترجمان بن کر سامنے آتے ہیں جس میں سچائی، وقار اور استدلال کے ساتھ گفتگو کی جائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، ثبات اور وقار کے ساتھ زندہ رکھے، ان کے علم، ان کی زبان اور ان کی جرأت کو ایسے ہی مکالموں کے لیے محفوظ رکھے، کیونکہ آنے والے دنوں میں شاید ہمیں خطیبوں سے زیادہ ایسے اہلِ فکر کی ضرورت ہوگی جو شور نہیں مچاتے، بس خاموشی سے سچ کو واضح کر دیتے ہیں ۔


Comments
Post a Comment