Monday, 21 September 2015

ممتا کی ٹهیکیداری کیا صرف انسانوں کے لئے ہی محدود ہے؟






نقاش نائطی


عام معمولات زندگی، ایک درندہ چیتےکو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کسی شکار کا انتظار ہے. ایک بندریا پر نظر پڑتی ہے جهپٹ کر اسے لقمہ تر بنایا جاتا ہے. دانتوں سے اسے اٹهائے اپنے جائے مخصوص پر اسکے تازہ گوشت سے لطف اندوز ہونے لیجایا جارہا ہوتا ہے کہ ترچھی آنکهوں سے درندہ کہلانے والے اس بے زبان جانور کو ایک ایسے منظر کا نظارہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر دبکی ممتا جاگ اٹهتی ہے. اس دم توڑ چکے بندریا کے ہچکولے کهاتے مردہ جسم نے ایک لاغر سے ننهے بندر کو جنم دیا ہے. یہ منظر دیکھ ، وہ درندہ صفت جانور چیتا اپنے شکار کو اسی لمحہ وہیں پر چهوڑ دیتا ہے. اسے اب بس فکر لاحق ہے تو اس ننهی جان کو بچانے کی،کسی اور درندے کا لقمہ تر اس ننهی جان کو بنتے نہ دیکهنے کی، اپنے پیروں پر کهڑا ہونے سکها نے کی، اپنی زندگانی کا سفر آگے بڑهاتے جینے کا سفر طہ کرنے کے گر سیکهانے کی، اس کی ماں کو مار کر گوکہ اس نے کوئی خطا نہ کی تهی لیکن اس کی ماں کے نہ ہونے سے، اس ننهی جان کو کوئی خطرہ لاحق ہو، وہ درندہ نما جانور یہ کیسے دیکھ سکتا تها. اسی لئے اس ننهی جان کو اپنی زندگی جینے کے گر سکهلاتے تک اسکی کفالت کی ذمہ داری اس چیتے نے لے لی تهی. اپنے شکار کے گرم گوشت سے لطف اندوز ہونے پر، اپنے شکار کو وہیں پر چهوڑ اس ننهی جان کو بچانے کی فکر میں لگ گیا تها وہ درندہ نما جانور کہلانے والا چیتا. 
سونے کی چڑیا ہند کو ہزاروں سال قبل کے تخیلاتی رام راجیہ بنانے کی دهن، اپنے گلو میں لئے ، مذہبی منافرت کا پڑهایا ہوا سبق یاد رکهے، انسانیت کا علمبردار، وہ مذہبی شدت پسند، وحشی جنونی انسان، تھوڑی نہ تها؟ جسے ہاتهوں میں نیزہ بهالا دیئے، مسلمانوں کا قتل عام کرنے گجرات کی سڑکوں پر کهلا چهوڑ دیا گیا تها.اسکے سامنے نو ماہ کی حاملہ مسلمان عورت اپنے ہونے والے بچہ کی دہائی دے، اس سے رحم کی بهیک مانگتی تو اس حاملہ عورت کو برہنہ کر, تیز بهالے سے اسکا پیٹ چاک کر، ان جنی زندہ تڑپتی ننهی جان کو نیزہ پر اچهال کر, جن انسان نما وحشی درندوں نے قہقہے مارے تھے وہ آج بهی گجرات کی سڑکوں پر بے خوف و خطر گھوم پهر مزہ لوٹ رہے ہیں.اس درندہ نما جانور چیتے نے دهرتی کے قانون کرین مطابق ( نیم انوسار) انجانے میں ہلاک کی ہوئی بندریا ماں کے مابعد موت جنی ننهی بندریا کو جینے کے لائق بنا، چهوڑ ایک حد تک اپنے ناکردہ گناہ کی تلافی اس جانور نے تو کر لی تهی لیکن گجرات کے ان قاتلوں کو سزا کون دینے والے ہے؟ ان پر تو آج بارہ پندرہ سالوں سے انعامات و اکرامات کی بارش ہو رہی ہے. وہ اقتدار کے مزہ دونوں ہاتهوں لوٹنے میں مگن ہیں.ایسے میں اب ہمیں اپنے جوان بازوؤں اور اپنے حوصلوں کی بنسبت اللہ رب العزت ہی طرف سے آسمانی مدد و سہارے کا انتظار ہے . 


No comments:

Post a Comment