ایودھیا، جہاں ماضی کے قصے اور جدید تمنائیں دست و گریباں ہیں۔ اس صورت میں ایودھیا ایک درویش کی مانند سامنے آتا ہے، جسے حالات نے دولت مند تو بنا دیا، لیکن اس کے مزاج میں سادگی اب بھی رچی بسی ہے۔
رام مندر سے امبیڈکر اسٹیڈیم تک
ایک زمانہ تھا کہ ایودھیا رام کے قصے سننے والوں کی سرزمین تھی — پرسکون، زائرانہ، روایتوں میں گم۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں وہاں بدلاؤ کی آندھی چل گئی: سڑکیں، عمارتیں، اور سب سے بڑھ کر رام مندر کا افتتاح جس نے لاکھوں عقیدتمندوں کو کھینچ لیا۔
تضاد کا نیا میدان
اب ایودھیا میں صرف مندر نہیں، کرکٹ اسٹیڈیم بھی بن رہا ہے — ڈاکٹر امبیڈکر کے نام پر! کیا عجیب منظر ہے: رام کی سرزمین پر امبیڈکر کا نام، کھیل کے میدان میں سیاست کا تماشہ۔ چالیس ہزار تماشائی، بجٹ میں دُگنا اضافہ، اور پرانی کہانی — تاخیریں، شفافیت پر سوالات، عوامی ترقی کے نام پر مالی گڑبڑیں۔
ناموں کا کھیل
سوشل میڈیا پر شور ہے: "یہ مذہبی توہین ہے!" "اسے شری رام اسٹیڈیم کہو!" گویا ہر دور کی لڑائی نئے روپ میں سامنے آئی ہے؛ جیسے بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا قضیہ اب ناموں کی جنگ میں بدل گیا ہو۔
امبیڈکر: عقل کا چراغ
ڈاکٹر امبیڈکر وہ ہیں جنہوں نے آئین لکھا، ذات پات سے لڑا، سماجی انصاف کی بات کی۔ ان کی کتاب Riddles in Hinduism میں سوال اٹھائے، دیومالائی قدروں کو پرکھا — آج ان کا نام رام کے شہر میں کرکٹ کی پچ پر گونج رہا ہے؛ یہ صرف تضاد نہیں، ہندوستانی معاشرے کی اصلی تصویر ہے۔
تہذیبی میل جول اور جشن
کرکٹ یہاں صرف کھیل نہیں، نئی تہذیب بن چکی ہے۔ ذات و مذہب کی دیواریں گر گئیں، صرف کھیل باقی ہے۔ حکومت کہتی ہے تبدیلی آگئی، مگر اصل سوال تو یہی ہے کہ ہم اس شور میں اپنی پہچان بچا سکتے ہیں یا نہیں۔
اختتامی نوٹ: تضاد میں اتفاق
ایودھیا کی موجودہ داستان دراصل ہندوستان کی تقدیر ہے۔ پرانی روایتیں، تیز رفتار ترقی، اور شناخت کی چھاپ — سب ایک قالین کے اُلجھے دھاگے میں بندھے ہیں۔ 2026 میں جب اسٹیڈیم بن جائے گا، وہاں کھیل کم، تماشہ زیادہ ہو گا۔ رام کی دھرتی پر امبیڈکر کا نام — یہ ہندوستانی وحدت اور تضاد کی سب سے خوبصورت علامت ہے۔
(مصنف آل انڈیا ملی کونسل کے مرکزی رکن ہیں۔)

No comments:
Post a Comment