Pages

Monday, 17 November 2025

 مدینہ منورہ کی شاہراہ پر المناک حادثہ 42 ہندوستانی عمرہ زائرین جاں بحق، بیشتر کا تعلق حیدرآباد سے

"یہ حادثہ صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی دل کا زخم ہے — جو دیر تک رستا رہے گا۔"


خصوصی رپورٹ: جمیل احمد ملنسار
مدینہ منورہ، سعودی عرب — پیر کی صبح ایک دل دہلا دینے والے حادثے نے پوری امتِ مسلمہ کو غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا۔ 17 نومبر 2025 کو مدینہ مکرمہ سے مکہ مکرمہ جانے والی ایک بس، جس میں ہندوستان کے پینتالیس عمرہ زائرین سوار تھے، مکہ۔مدینہ شاہراہ پر ایک ڈیزل ٹینکر سے جا ٹکرائی۔ ٹکر اتنی شدید تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پوری بس شعلوں میں گھر گئی۔ اس مہیب حادثے میں بیالیس زائرین جاں بحق ہوگئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔ صرف ایک مسافر زندہ بچ سکا۔

حادثہ رات تقریباً ایک بج کر تیس منٹ (بھارتی وقت کے مطابق) پیش آیا، جب زیادہ تر مسافر نیند میں تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ کسی کے پاس فرار کا موقع نہ تھا۔

متوفیان کا تعلق زیادہ تر ریاستِ تلنگانہ کے شہر حیدرآباد اور اس کے اطراف سے بتایا جا رہا ہے۔ شناخت کا عمل جاری ہے۔ سولہ افراد کی شناخت ہو چکی ہے جن میں عبدالمحمد، محمد مولانا، سہیل محمد، مستان محمد، پروین بیگم، زکیہ بیگم، شوکت بیگم، فرحین بیگم، ذہین بیگم، محمد منظور، محمد علی، اور غوثیہ بیگم کے نام شامل ہیں۔ جاں بحق افراد کے جسدِ خاکی مدینہ منورہ میں رکھے گئے ہیں جہاں فرانزک تجزیہ اور وطن واپسی کی تیاری کی جا رہی ہے۔

سعودی حکام کے ساتھ بھارتی سفارتی اور تلنگانہ کی حکومتی ٹیمیں مسلسل رابطے میں ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کی مدد اور میتوں کی حوالگی کے لیے کنٹرول روم قائم کر دیے گئے ہیں۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی اور نائب صدرِ جمہوریہ نے اس سانحے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے اور متوفیان کے لواحقین سے ہمدردی کے ساتھ مکمل تعاون کا وعدہ کیا ہے۔

یہ المناک حادثہ اس ابدی حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ عبادت کے سفر میں بھی آزمائشیں پیش آتی ہیں۔ عمرہ کے اس سفر پر روانہ ہونے والے ان پروانوں کا دل بیت اللہ کی حاضری کے شوق سے لبریز تھا، مگر تقدیر نے انہیں وہیں بلا لیا جہاں سے کوئی پلٹ کر نہیں آتا۔

ہندوستانی برادری ان بیالیس جاں بحق زائرین کی یاد میں سوگوار ہے، جن کا روحانی سفر سرزمینِ حرم ہی میں اختتام پذیر ہوا۔ حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچاؤ ممکن ہو۔




No comments:

Post a Comment