Thursday 12 November 2015

Message of Unity



💥پیغام اتحاد ہے جهاں تک پہونچے💥

🔨بلا کسی تے ایک فکر ایک اتحادی پیغام نوجوانان اسلام کےنام


ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہمارے اندر سے جماعتی نظام مفقود ہوگیا ہے ہمیں ضرورت ہے ایک جماعت بنکر رہنے کی ہمیں ضرورت ہے ایمان و یقین کے ساتہ ساتھ بصارت و بصیرت کی اور اس درد کو تڑپ کو کڑہن کو امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رح نے اپنے رخصت ہوجانے تک محسوس کیا اور اپنی سحر انگیز خطابت میں ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے (کہ محض جماعتی قوت کی نمائش کا کوئ فائدہ نہی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں کانفرنسیں منعقد کروائ جائیں یہ تمام تر اجتماعی نمائشیں ہیں جن پر بهیڑ کا اطلاق تو ہوسکتا ہے جماعت کا نہی بهیڑ اور جماعت میں فرق ہے بهیڑ بازار میں دیکهی جاسکتی ہے جب کوئ تماشہ ہورہا ہو جماعت جمعہ کے دن مسجدوں میں دیکهی جاسکتی ہے جب ہزاروں انسانوں کی منظم اور مرتب صفیں ایک مقصد، ایک جهت، اور ایک حالت، ایک ہی امام کے پیچھے مجتمع ہوجاتی ہے اس کے علاوہ نہ تو جماعت ہے اور نہ امت اور نہ قوم اور نہ اجتماع اینٹیں ہوسکتی ہیں مگر دیوار نہی کنکر ہوسکتے ہیں مگر پہاڑ نہی قطرے ہوسکتے ہیں مگر دریا نہی)
آج ہم کڑیوں کی شکل میں بکهرے پڑے ہیں کیا ہم زنجیر کی مضبوط کڑی نہی بن سکتے؟ جو بڑے بڑے جہازوں کو گرفتار کر لے اور جکڑلےہر طرف باطل طوفان منہ کهولے کهڑے ہیں ایسے نازک وقت میں اسلام کی بقا کیلئے اور خود کو توٹنے اور بکهر نے سے پہلے ہمیں منظم ہونا ہوگا ایک جماعت بنکر رہنا ہوگا اپنے عزائم اپنے ارادوں اور اپنی قوتوں کو تسلسل اور استقلال کے سات اور مضبوط کرنا ہوگا فخر سے سر بلند ہوتا ہے اور حوصلوں کو تقویت ملتی ہے جب میں اپنے بزرگ مؤسس التبليغ مولانا الیاس کاندہلوی مرحوم کی کی تحریک کو دیکهتا ہوں جو ایک سو تراسی 183 ملکوں میں نہایت ہی فعال اور متحرک انداز میں صحراؤں اور سفینوں میں اپنے فریضہ کو انجام دیتی نظر آتی ہے اللہ ہی جانتے ہیں کہ کس اخلاص سے انهوں نے امت کی اس بهیڑ کو نہایت خاموشی سے ایک جماعت بنانے کا کام عظیم قربانیاں دیکر کیا اور اللہ رب العالمین نے ان کو ابدی کامیابی عطا فرمائ سلام علی الیاس انہ کان من المحسنين غالبا یہی وہ بات تهی جس کے پیش نظر مولانا الیاس کاندہلوی مرحوم نے حضرت مدنی رح سے ایک بار کہاتها کہ آپ لوگ جو کام کررہے ہیں میں اس کی فوج تیار کررہا ہوں. کاش یہ لڑیاں اور کڑیاں پہر سے مربوط ہو جائیں اور کسی طوفان نوح سے قبل ہم ساحل مراد پر واپس آجائیں اور میں یقین سے کہہ تا ہوں جب تک دعوت و تبلیغ کی دنیا آباد ہے جب تک تقوی کی عظمت باقی ہے جب تک یہ قافلہ اعمال و اخلاق کی قیمت برقرار ہے اس وقت تک حضرت مولانا الیاس کاندہلوی رح کا نام نامی سینوں میں اور سفینوں میں زندہ اور محفوظ رہے گا اس وقت مولانا مرحوم کی اس تحریک سے سبق لینے اور سیکهنے کی ضرورت ہے نہی تو پہلے بهی ہماری اجتماعی قوت کا شیرازہ بکهیر دیا گیا ہے تقسیم وطن کے نام سےاور آج بھی مصائب اور غیر معمولی حوادث کی آندھیاں ہمارے سامنے کهڑی ہیں ہر جگہ مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے چاہے وہ امریکہ وإسرائيل کا دہشت گردانہ طغیان ہو یا شیعہ کافر کا برپا کیا ہوا فساد ہو یا ہندوستان کے ہندوؤں کی گندی سازشی سیاست ہو کفر چاہے جس شکل میں ہو مسلمان ہر طرف مشکلات اور مایوسیوں کی دهند میں بے یارو مددگار سے ہوکر رہ گئے ہیں عدم تحفظ کے احساس نے زندگی جینے کا حوصلہ جیسے ختم ہی کردیا ہے یاد رکهو مسلمانو اگر ایسے حالات میں بھی ایک قوم ایک جماعت نہ بن سکے تو اس روئے زمین پر ہمارے مدرسے ہیں خانقاہیں ہیں ہمارے پرکھوں کے مزارات ہیں ہمارے تاریخی آثار ہیں جو ہمیں تاقیامت پکاریں گے اور کہیں نگےکیوں ہمیں بے یارو مددگار چهوڑا کیوں ہمیں غیر آباد کرکے خود برباد ہوگئے
.
وہ 313 تهے تو لرز تا تها زمانہ
والسلام علیورحموبرکاتہال

No comments:

Post a Comment